سلام کرنے میں سبقت

638

مولانا تبریز عالم
سیدنا ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا: سوار، پیدل چلنے والے کو سلام کرے، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے لوگ زیادہ کو۔
دوسری روایت میں ہے:
چھوٹا بڑے کو سلام کرے، گزرنے والا بیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے زیادہ کو۔ (بخاری)
اِن دو احادیث میں اِس کا بیان ہے کہ سلام میں پہل کون کرے؟ اور کس کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ سامنے والے کو پہلے سلام کرے؟ ترتیب وار مسائل اور حکمتیں درج ذیل ہیں:
سوار، پیدل چلنے والے کو سلام کرے
یہ حکم استحباب کے طور پر ہے اور تواضُع وخاک ساری کی جانب متوجہ کرنے کے لیے ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اْسے سواری کی نعمت عطا فرمائی ہے، تو اْس کا حق ہے کہ تواضع اختیار کرے؛ اگر پیدل چلنے والے کو حکم ہوتا کہ سوار کو پہلے سلام کرے تو سوار میں، تکبّْر وگھمنڈ پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ (شرح ابن بطال)
اس بنا پر جو شخص کسی سواری پر سوار ہے تو پیدل چلنے والے؛ بلکہ بیٹھے ہوئے لوگوں کو پہلے سلام کرے۔ امام بخاریؒ نے ’’الادب المفرد‘‘ میں فَضالہ بن عبیدؓ کی حدیث ذکر کی ہے کہ گھوڑ سوار بیٹھے ہوئے کو سلام کرے۔
گذرنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے
اس کی حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ بیٹھے ہوئے شخص کا ہر گزرنے والے کی طرف، بار بار متوجہ ہونا اور سلام کرنا مشکل ہے، جبکہ گزرنے والے کو ایسی مشکل نہیں۔
تھوڑے، زیادہ لوگوں کو سلام کریں
یہ حکم اِس حکمت کے پیش نظر دیا گیا ہے کہ زیادہ لوگوں کا تھوڑے لوگوں پر زیادہ حق ہے اور اس لیے بھی کہ زیادہ لوگ تھوڑے لوگوں کو یا اکیلے کو پہلے سلام کریں گے تو اْن میں خود بینی اور تکبر پیدا ہونے کا اندیشہ ہے، نیز کم لوگوں کا سلام کرنا آسان ہے بنسبت زیادہ لوگوں کے۔
چھوٹا بڑے کو سلام کرے
چھوٹے کو سلام میں پہل کرنے کا حکم اس لیے دیا گیا کہ بڑے کا حق، چھوٹے پر زیادہ ہے۔ کیونکہ چھوٹے کو حکم ہے کہ بڑے کی عزت کرے اور اْس کے ساتھ با ادب رہے۔ لہٰذا جو عمر یا رتبے میں چھوٹا ہو وہ بڑے کو سلام کرے، مثلاً باپ بیٹا، استاد شاگرد، وغیرہ۔ لہٰذا بیٹا، باپ کو اور شاگرد، استاذ کو سلام کرے۔
بازار اور شارع عام کا حکم
اگر کوئی بازار یا عام سڑک یا چوراہے پھر ایسی جگہ سے گزر رہا ہے جہاں لوگوں کی آمد ورفت بکثرت رہتی ہے تو وہاں کچھ لوگوں کو سلام کرلینا کافی ہے، کیونکہ ایسی جگہوں میں ہر شخص کو سلام کریں گے تو وہ اپنا کام صحیح طور پر، بروقت انجام نہیں دے سکیں گے۔ (یہی حکم شاپنگ مال، بڑی دکانوں، پلیٹ فارم، بینک اور بس اسٹاپ وغیرہ کا ہے)۔
نوٹ: پیدل چلنے والا، بیٹھے ہوئے کو سلام کرے، یہ استحبابی حکم ہے؛ لیکن اگر پیدل چلنے والوں کی تعداد زیادہ ہے اور بیٹھے ہوئے لوگوں کی تعداد کم ہے تو یہاں کیا حکم ہوگا؟ کیوں کہ یہاں استحباب کی دونوں جہتیں ہیں؛ تعداد کے پیشِ نظر قاعدین کو سلام کرنا چاہیے؛ جبکہ حالت کے مدِ نظر پیدل چلنے والوں کو سلام کرنا چاہیے؟
اِس کا جواب یہ ہے کہ ایسی صورت میں دونوں جہتیں ساقط اور کالعدم سمجھی جائیں گی اور اِس کا حکم ایک ساتھ دو ملنے والے اَفراد کے حکم کی طرح ہوگا؛ لہٰذا ہر ایک ابتدا کی کوشش کرے اور کچھ لوگوں کی رائے یہ ہے کہ پیدل چلنے والے کے لیے اِس صورت میں بھی سلام کرنا افضل اور مستحب ہے۔
درس گاہ یا مجلس جیسی جگہوں میں آنے والا ہی سلام کرے
اگر کوئی کسی مجلس یا درس گاہ یا ایسی جگہ جائے جہاں پہلے سے لوگ موجود ہیں یا انتظار کرر ہے ہیں، خواہ وہ بیٹھے ہوئے ہوں یا کھڑے ہوں، آنے والے ہی کو سلام کرنا چاہیے، آنے والا چھوٹا ہو یا بڑا، کم ہوں یا زیادہ، استاد ہو یا شاگرد وغیرہ۔ اور ایسی جگہوں میں ایک سلام کافی ہے؛ ہر ایک کو الگ الگ سلام کرنا ضروری نہیں ہے۔
سلام میں پہل کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر چھوٹا یا گزرنے والا، سلام نہ کرے تو بڑا یا بیٹھا ہوا بھی خاموش رہے، بلکہ یہ حکم استحبابی ہے، افضلیت پر محمول ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں بڑے کو سلام کردینا چاہیے تاکہ چھوٹے کو تنبیہ ہو۔
اِسی طرح اگر ابتداً ہی بڑے نے سلام کردیا یا پیدل چلنے والے نے سوار کو سلام کردیا تو یہ مکروہ نہیں ہے۔ سیدنا عمر بن عبد العزیزؒ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ اپنے پہرے داروں کے پاس آتے تھے تو از خود سلام کرتے تھے اور اْن کی طرف سے تاکید تھی کہ جب وہ آئیں تو وہ لوگ سلام نہ کریں اور نہ ہی کھڑے ہوں۔
فتاویٰ محمودیہ میں ہے:
جو شخص کسی کے پاس جائے، اْس کو چاہیے کہ سلام کرے اور جس کے پاس جائے وہ سلام کا جواب دے، لیکن اْس نے سلام نہیں کیا اور وہ خاموش کھڑا ہوگیا اور جس کے پاس گیا تھا اْس نے سلام کرلیا اور اس کی بڑائی کا لحاظ کرلیا، تب بھی گناہ نہیں، بلکہ اس کو بہت ثواب ملے گا۔ (9/63)
جب دونوں ایک رُتبے کے ہوں؟
جب دونوں چلنے والے برابر درجے کے ہوں، مثلاً عمر میں برابر ہوں یا حالت میں برابر ہوں، دونوں سوار ہیں یا دونوں پیدل ہیں، تو ایسی صورت میں ہر ایک کو سلام میں پہل کی کوشش کرنی چاہیے اور جو پہلے سلام کرے گا، اْسے افضل قرار دیا جائے گا، حدیث میں ہے: لوگوں میں اللہ سے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو سلام میں پہل کرے۔ (ترمذی)
رات کو آنے والا سلام کیسے کرے؟
سیدنا مقداد بن اسودؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمؐ رات کو تشریف لاتے تو سلام اِس طرح کرتے کہ سویا ہوا بیدار نہ ہوجائے اور بیدار سلام سْن لے۔ (الادب المفرد)
علامہ نوویؒ لکھتے ہیں:
اِس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایسی جگہ جہاں کچھ لوگ بیدار ہوں اور کچھ لوگ سوئے ہوئے ہوں یا آرام کررہے ہوں تو وہاں سلام کرنا چاہیے، ایسے موقع پر سلام شائستگی کے ساتھ کرنا چاہیے کہ کسی کو خلل نہ ہو اور مقصد بھی حاصل ہوجائے، ورنہ سلام بجائے امن وسلامتی کے خلل ودشواری کا سبب بن جائے گا، جو موضوعِ سلام کے خلاف ہے۔ (تحفۃ الاحوذی)
اِس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سلام کرنے والے کو، ہمیشہ اس کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ اْس کے سلام سے کسی طرح کی کوئی اذیت، بندگانِ خدا کو نہ پہنچے اور اذیت کا دائرہ بہت وسیع ہے۔
مذکورہ حدیث اور ہم مسلمان
اِس حدیث سے اِس بات پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ پیغمبرِ اسلام نے کتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کی تعلیم دی ہے اور اْس پر عمل کرکے دکھایا ہے، آپ نے سونے والے کی اتنی رعایت کی۔
پیچھے سے اچانک سلام کردینا
اگر کوئی شخص ٹہلتے ہوئے قرآن کی تلاوت کررہا ہو، اوراد ووظائف میں مشغول ہو یا تسبیح پڑھ رہا ہو تو پیچھے سے اچانک سلام نہیں کرنا چاہیے، خلل تو ہوتا ہی ہے، بعض دفعہ انسان گھبرا بھی جاتا ہے،راقم نے اپنے کئی اساتذہ کو ایسے سلام کرنے والے کو تنبیہ کرتے ہوئے دیکھا ہے، مذکورہ حدیث کی روشنی میں یہ ممانعت، بالکل صحیح ہے۔