امام بخاری ؒ ۔۔۔ چند خصوصیات

1689

مفتی مجیب الرحمن

امام بخاریؒ (متوفی 256ھ) کے زمانے میں احادیث مبارکہ کی سیکڑوں کتابیں لکھی گئیں، کئی مصنفین ومحدثین کا اس زمانے میں دور دورہ تھا، ایک ایک محدث کے سیکڑوں شاگر ہوا کرتے تھے، ان سب کے باوجود جو قبولیت اللہ تعالیٰ نے امام بخاری اور ان کی کتاب کو نصیب فرمائی وہ دوسروں کے حصے میں نہیں آئی۔ اس کے اسباب ووجوہات پر نظر کرتے ہوئے علما نے ارشاد فرمایا کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے والد بزرگوار نے اپنے بچے کے لیے حلال اور پاکیزہ غذا کا اہتمام کیا تھا، حرام اور مشتبے مال سے اپنے اہل وعیال کی حفاظت فرمائی تھی، جس حلال کی برکت اتنے بڑے علمی کارنامے کے ذریعے ظاہر ہوئی، بخاری شریف کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ (قرآن کریم کے بعد صحیح ترین کتاب) کا درجہ حاصل ہوا ہے، انسان کے کارنامے کو یہ درجہ حاصل ہونا کوئی معمولی بات نہیں، علما نے ارشاد فرمایا کہ اس درجے کے حاصل ہونے میں ان کے والد کا خوراک کے معاملے میں کمال احتیاط کو بڑا دخل ہے، جبکہ ان کے والد نے انتقال کے وقت اپنے مال کے متعلق ارشاد فرمایا تھا کہ میرے مال میں کوئی درہم حرام تو درکنار شبہے کا بھی نہیں ہے۔ (فتح الباری) اسی لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر ایک اپنی آمدنی کے ذرائع پر نظر رکھے پاکیزہ اور طیب کی تلاش میں رہے اور حرام وناپاک مال سے اجتناب کرے۔
حدیث مبارک میں آپؐ نے مسلمانوں کی جو تعریف کی ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ وزبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (مشکوۃ) اس لحاظ سے دوسرے مسلمان کو ہاتھ سے اذیت پہنچانا تو دشوار ہے، لیکن زبان سے اذیت دی جاسکتی ہے اور اس سے بچنا نہایت دشوار مرحلہ ہے۔ اس میں بھی غیبت سے بچنا بہت ہی مشکل ہے۔ نیز ایسے موقع پر جبکہ مخالفین کی جانب سے زبان وقلم کے نشتر چلائے جارہے ہوں اور مخالفین نیچا دکھانے کے لیے ہر جانب سے کوشاں ہوں، اس کے باوجود حق پر زبان کی استقامت میں ذرہ برابر فرق نہ آنا یہ امام بخاریؒ کی کرامت سے بڑھ کر ہے، امام بخاریؒ نے فرمایا کہ جب سے مجھے غیبت کے حرام ہونے کا پتا چلا تب سے میں نے کسی کی غیبت نہیں کی، ایک اور روایت میں یوں ہے کہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ سے میں اس حالت میں ملوں گا کہ اللہ تعالیٰ غیبت کے سلسلے میں مجھ سے حساب نہیں لیں گے؛ کیونکہ میں نے کسی کی غیبت نہیں کی۔ (فتح الباری) یہی وہ خصوصیت ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انھیں مقبولیت کا یہ مقام ومرتبہ نصیب فرمایا۔ غیبت کے سلسلے میں جس قدر سخت وعیدیں قرآن وسنت میں وارد ہوئی ہیں اسی قدر اس میں ابتلا بھی عام ہے، ایسے میں اپنی زبان پر قابو رکھنا اور مخالفین کے سلسلے میں زبان کو ساکت رکھنا، اور دوسروں کا تذکرہ برائی سے نہ کرنا، یہ ایسی خصوصیت ہے کہ جس کی آج ہر عام وخاص، عالم وجاہل کو ضرورت ہے۔
نماز بندۂ مومن کی معرا ج ہے، اللہ تعالیٰ سے قرب الٰہی کا ذریعہ ہے، صحابہ کرام کی حالت، نماز میں ایسی ہوتی کہ گویا کہ وہ خشک لکڑی ہیں، آپؐ کو نماز سے اتنا لگاؤ تھا کہ عبادت کرتے ہوئے پائے مبارک پر ورم آجاتا۔ کوئی ادنیٰ سا معاملہ پیش آتا تو نماز کی طرف متوجہ ہوجاتے، اسی نماز کے متعلق آپؐ نے حدیث جبرئیل میں تعلیم دی کہ نماز میں اتنا استحضار پیدا کرو کہ نماز میں یہ تصور قائم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کو تم دیکھ رہے ہو، اگر یہ نہ ہو توکم ازکم یہ تصور تو قائم کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو دیکھ رہے ہیں۔ اس سے تمہاری عبادتوں میں احسانی کیفیت حاصل ہوگی۔ (مشکوۃ) امام بخاریؒ کی نماز کیسی احسانی کیفیت سے معمور تھی، آپ اس واقعے سے اندازہ لگائیے کہ ایک دفعہ آپ نماز پڑھ رہے تھے بھڑنے آپ کے جسم پر سترہ دفعہ کاٹا، جب آپ نے نماز پوری کی تو کہا کہ دیکھو کونسی چیز ہے جس نے مجھے نماز میں تکلیف دی ہے، شاگردوں نے دیکھا تو بھڑ تھی جس کے کاٹنے سے ورم آگیا تھا، آپ سے جلدی نماز ختم کرنے کی بات کہی گئی تو فرمایا کہ میں جس سورت کی تلاوت کررہا تھا اس کے ختم کرنے سے قبل نماز ختم کرنا نہیں چاہ رہا تھا۔ (فتح الباری)