پھر اس پر گزارہ کر لیتے ہیں

394

zc_Muzaferکہا جاتا ہے کہ طاقت انسان کے رتبے اور منصب میں ہوتی ہے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ طاقت انسان کے اندر ہوتی ہے اور تجربہ بتاتا ہے کہ طاقت طاقت ہوتی ہے نہ منصب اس کے سامنے کھڑا رہتا ہے نہ انسان۔۔۔ تازہ ترین تجربہ یہ ہے کہ ملک کا وزیر داخلہ رینجرز کے اہلکار کے سامنے بے بس تھا ۔ وفاقی وزیر داخلہ کے ساتھ رینجرز اہلکار نے دادا گیری بھی اس دن کی جس دن احسن اقبال دادا بنے ۔۔۔ حالانکہ دادا گیری کا حق ان کا تھا لیکن پاکستان میں تو حق داروں کو کبھی حق ملا نہیں لہٰذا اب ڈھونڈتے رہیں کہ کس نے رینجرز کو بلایا تھا کون حکم چلا رہا تھا اور کس نے رینجرز کو عدالت میں آنے والوں کی فہرست پکڑائی تھی ۔ اب وزیر داخلہ برہم ہیں اور کہتے ہیں کہ کٹھ پتلی بننے سے بہتر ہے استعفا دے دوں ۔ لیکن وزیر داخلہ پورے ملک میں کسی بھی مسئلے پر احکامات دینے کا اختیار رکھنے کے باوجود استعفا دینے کا اختیار نہیں رکھتے ۔ انہیں اس کے لیے بہت سے لوگوں سے اجازت لینی پڑے گی ۔ بات صرف پارٹی سربراہ کی نہیں ہے بلکہ اس طاقت کی ہے جو اب نہیں ملتی ۔ ایک مثال سابق وزیر بلدیات و اسپیکر فخر امام نے قائم کی تھی جب وہ الیکشن ہار گئے تو انہوں نے عہدے سے استعفا دیا اور سیاست سے ایسے غائب ہوئے کہ پھر اس کوچے کا رُخ بھی نہ کیا ۔ دوسری مثالیں سراج الحق اور ہارون الرشید کی تھیں جنہوں نے باجوڑ کے مدرسے پر حملے میں طلبہ کی شہادت پر اسمبلی کی رکنیت سے استعفا دے دیا تھا ۔ اس کے بعد سے تو کوئی با اختیار شخص نہیں ملا۔۔۔ احسن اقبال صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اتنا اختیار بھی استعمال نہیں کر سکتے جب انہوں نے خود کہہ دیا کہ کٹھ پتلی بننے سے بہتر ہے مستعفی ہو جاؤں لیکن کئی دن گزرنے کے باوجود کارروائی نہ ہوئی تو انہوں نے کٹھ پتلی بنے رہنے پر اکتفا کیا ۔



اگلے دن سے وہ ٹی وی چینلوں پر بیٹھ گئے اور بولنے کا اختیار بھر پور طریقے سے استعمال کیا ۔ انہوں نے کہا ہے، انہوں نے مزید کہا اور انہوں نے پھر کہا تک کی خبریں بن گئیں کہتے ہیں کہ تحقیقات ہو گئی ہے رینجرز کو کسی نے نہیں بلایا تھا ۔اب جواب مانگیں گے ۔ سوال یہ ہے کہ کس سے ۔۔۔ رینجرز کے باس تو آپ ہی ہیں اپنے آپ سے جواب کیوں مانگیں گے آپ تو وزیر داخلہ ہیں احتساب عدالت میں اگر کسی نے رینجرز کو نہیں بلایا تھا تو آپ وہاں آنے والی پوری رینجرز پارٹی کو معطل کر دیں ۔ بر طرف کر دیں ان کے کورٹ مارشل کا حکم جاری کریں لیکن بیان بازی سے گریز کریں۔ اسی کی وجہ سے اداروں کے درمیان تصادم کا تاثر ابھرتا ہے ۔ اور جواب مانگنے سے ان کے اپنے الزام کی تصدیق بھی ہوتی ہے کہ ریاست میں ریاست قائم ہے ۔ جب ہی تو ایک ریاست دوسری ریاست کے ذمے داروں سے ان کے اہلکاروں کے بارے میں جواب مانگ رہی ہے ۔ اگر ریاست ایک ہی ہے اور آپ اپنی رٹ بر قرار بلکہ استعمال کرنا چاہتے ہیں تو پھر فیصلہ کریں مطالبہ نہیں ۔ یہ بحث اپنی جگہ کہ رینجرز کو کس نے بلایا تھا اب تو اصل بات یہ ہے کہ وزیر داخلہ کے پاس کتنا اختیار ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ احسن اقبال صاحب اگر اپنی ساکھ سیاست میں بر قرار رکھنا چاہتے ہیں تو واقعی وزارت داخلہ سے استعفا دے دیں ، دھمکیاں اور خواہش کا اظہار نہ کریں ۔ البتہ عمران خان کی جانب سے معاملے کو پاک فوج اور حکومت کے درمیان تصادم یا اختلاف کا رنگ دینے کی کوشش بھی کی گئی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وزیر داخلہ نے فوج کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ریاست کے اندر ریاست والی بات انگریزی میں کہہ کر دنیا کو پیغام دیا گیا ہے ۔ عمران خان کی یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ انگریزی میں بات کہہ کر مغرب ہی کو پیغام دیا جاتا ہے ۔ جب مسلم لیگ کے سابق وزیر



اعظم میاں نواز شریف امریکا میں بارک اوباما سے ملے تو انگریزی میں کچھ کہا اور اردو میں کچھ اور انگریزی والی باتیں تو پرچوں پر لکھی ہوئی تھیں اور اردو والی باتیں تو بڑی آسان ہوتی ہیں ۔ عافیہ کا بھی خوب ذکر کیا لیکن یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ میاں صاحب نے انگریزی میں اوباما سے ایسی کوئی بات نہیں کہی تھی ۔ زبانوں کے فرق سے پیغامات دیے جاتے ہیں لہٰذا احسن اقبال صاحب کے انگریزی جملوں کومعنی خیز سمجھا جا سکتا ہے۔
احسن اقبال صاحب بہر حال پڑھے لکھے اور لکھنے پڑھنے والے لگتے ہیں انہوں نے بھی سنا ہو گا۔ ان سے تعلق نہیں بس ایسے ہی یاد آگیا کہ ایک سرکاری افسر اپنے اعلیٰ افسران کی زیادتی اور تنخواہ میں اضافہ نہ ہونے سے تنگ تھا ۔ افسر ہونے کی وجہ سے عام ملازموں کی طرح مطالبات بھی نہیں کر سکتا تھا بس اعلیٰ افسران کے سامنے کہتا تھا کہ تنخواہ بڑھاؤ ، اختیارات بڑھاؤ۔۔۔ اکثر اعلیٰ حکام یہ سن کر خاموش رہتے اور نچلا عملہ سوچتا کہ اب کسی دن ہمارا افسر پھٹ ہی پڑے گا اور پھر تماشا ہو گا ۔ یا تو استعفا دے دے گا یا اس کی تنخواہ اور اختیارات بڑھ جائیں گے ۔ آخر دن وہ آہی گیا ۔ حسب معمول کسی کام کے مسئلے پر اعلیٰ افسران نے ان کی سرزنش کی تو اس افسر نے جھنجھلا کر کہا کہ آپ اختیارات تو دیتے نہیں تنخواہ بڑھاتے نہیں اس دفعہ بڑھا دیں ورنہ ۔۔۔ اس مرتبہ اعلیٰ افسر کو غصہ آگیا اور انہوں نے سوال کیا کہ ورنہ کیا۔۔۔ کیا کرو گے تم۔۔۔ بار بار کہتے ہو کہ ورنہ ۔۔۔ اس کا ابھی جواب دو کہ کیا کرو گے ۔ مذکورہ افسر نے کچھ سوچ کر پھر اسی تنخواہ اور اتنے ہی اختیارات پر کام کروں گا ۔ تو یہ تھا ڈراپ سین ۔ اس کہانی کا۔۔۔ تو بھائی احسن اقبال صاحب اس پر گزارہ کریں ۔۔۔ورنہ۔۔۔