شاہ سلمان کی طرف سے خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت اس ترقی کی جانب پہلا قدم ہے جس کے بعد زندگی میں کتوں اور دولت کے سوا کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ سعودی عرب میں گزشتہ برس وژن 2030 منصوبہ تشکیل دیا گیا۔ عرب بھائی اور وژن!! یقین نہیں آتا۔ سزا معلوم ہوتی ہے۔ لیکن یقین کر لیجیے، اس دور میں سب کچھ ممکن ہے۔ سعودی عرب میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے ہونے والی دشواریاں اس وژن کا سبب ہیں۔ خواتین کو گاڑی کی اجازت دینے سے اربوں ڈالر بچت کی امید ہے۔ کیسے۔ خواتین سے کچھ بعید نہیں۔ ممکن ہے جو فاصلہ مرد دس لیٹر پٹرول میں طے کرتے ہیں عورتیں پانچ لیٹر میں طے کرلیں۔ وژن کی ایک اور وجہ وہ لا کھوں نوجوان ہیں جو شاہ عبداللہ کے تعلیمی وظائف کے پروگرام کے تحت مغربی ممالک کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہو کر وطن واپس آتے ہیں تو انہیں ایک ایسے معاشرے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں سینماؤں پر بندش ہے۔ مزید ستم یہ کہ ریستورانوں میں خواتین اور مردوں کے حصے الگ الگ ہوتے ہیں۔ اس قدامت پسندی کے خاتمے کے لیے ’’عمومی تفریحی محکمہ‘‘ نامی ایک محکمہ بنایا گیا ہے۔ جس نے بڑی محنت سے پچھلے سال 80 کے قریب آتش بازی کے شو، موسیقی کے شو اور دوسرے مواقع ڈھونڈے ہیں جہاں لوگوں کو ’’تفریح‘‘ فراہم کی جاسکتی ہے۔ ایک اور نقصان کے ازالے کے لیے بھی تیز رفتاری سے کام ہورہا ہے۔ سعودی شہری ہر سال باہر کے ملکوں میں چھٹیاں منانے پر 70ارب ریال سے زیادہ کی رقوم خرچ کرتے ہیں۔ اگر سعودی عرب میں بھی دبئی، لندن اور دوسرے ممالک کی طرح ’’سہولتیں‘‘ فراہم کردی جائیں تو سعودی شہریوں کو باہر جانے کی مشقت سے نجات مل جائے گی دوسرے یہ کہ ملک کا سرمایہ ملک میں رہے گا۔ ترقی یافتہ کہلائیں گے وہ الگ۔ ترقی کے اس سفر کے آثار ابھی سے سعودی عرب میں نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔
اب سعودی عرب کی گلیوں میں ’’بدنام زمانہ‘‘ مطوع نامی پولیس نظر نہیں آتی۔ جس نے ظلم کی انتہا کر رکھی تھی۔ اس پولیس کا مشن برائی کو روکنا اور نیکی کو فروغ دینا تھا۔ اس پولیس کے خاتمے کا سہرا ولی عہدکے سر ہے۔ سعودی عرب میں ایک اور دنیا سے نرالا ظلم یہ تھا کہ گزشتہ نصف صدی سے سینماؤں پر پا بندی ہے۔ یہ پابندی سرکاری طور پر ہے نہ قانونی طور پر۔ جلد ہی اس ظلم سے بھی سعودی شہریوں کو نجات مل جائے گی۔ سعودی عرب میں اب سینما گھر کھلنے کے امکانات بھی روشن ہیں۔ سعودی سینما کمیٹی کے چئیرمین فہدالتممی کا کہنا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ سعودی عرب میں 2017 کے آخر تک سینما کھل جائیں گے۔
سعودی عرب میں اس تبدیلی کے روح رواں 32سالہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ہیں۔ جو روایتی طور پر قدامت پسند ملک میں خود کو جدید یت پسند کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ پیہم کوششوں کے بعد اب انسانی حقوق کے کارکنان مطمئن ہیں کہ معاشرہ تبدیل ہورہا ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس تبدیلی کے حق میں ہے۔ خواتین کی ڈرائیونگ کا معاملہ کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے۔ سعودی عرب کے اکا بر علماء کی کونسل قرار دے چکی ہے۔ اسلام خواتین کو ڈرائیونگ سے نہیں روکتا۔ بات درست ہے صحابیات رضی اللہ عنھم بھی گھوڑوں اور اونٹوں پر سفر کرتی تھیں۔ ترقی کے آغاز کے لیے ایک ایسے شعبہ کا انتخاب کیا گیا ہے جس پر احتجاج نہ کیا جاسکے۔ ترقی کا پہیہ چل گیا تو پھر کسے ہوش رہے گا کیا اسلامی ہے اور کیا غیر اسلامی۔ اس برس سعودی عرب کے قومی دن کی تقریبات کے موقعے پر پہلی مرتبہ خواتین کو اجازت ملی ہے کہ وہ اسٹیڈیم میں مردوں کے ساتھ بیٹھ کر آزادی کے ثمرات سے لطف اندوز ہوسکیں۔
سعودی عرب کے حکمرانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اب امریکا کو اسلام کی ضرورت نہیں۔ سوویت یونین اور کمیونزم کے خاتمے کے لیے اسلام کی مدد درکار تھی۔ یہ ضرورت عالم اسلام نے کما حقہ پوری کردی۔ امریکا کے سابق صدر نکسن نے اپنی ایک کتاب میں اعتراف کیا ہے کہ: ’’عالم اسلام نے مغرب سے بڑھ کرکمیونزم کا مقابلہ کیا ہے۔ ان کا معاشرہ ہمارے معاشرے سے زیادہ منظم ہے‘‘۔
لیکن اس خدمت کی انجام دہی کے بعد اب اسلام اور اسلامی اقدار امریکا کومغرب کے لیے خطرہ محسوس ہوتی ہیں۔ وہ طالبان جنہیں دیکھ کر امریکا کے سابق صدر ریگن کو امریکا کے آباء اور ہیروز یاد آتے تھے اب دہشت گرد ہیں، جہاد دہشت گردی اور اسلامی معاشرہ کٹر قدامت پسند معاشرہ معلوم ہوتا ہے جس کے خاتمے کے لیے امریکی کوشاں ہیں۔ پچھلے دنوں امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن سے کانگریس کے ایک رکن نے دریافت کیا کہ: ’’سعودی عرب جو انتہا پسند نظریات برآمد کرتا رہا ہے، پوری دنیا میں جو پُر تشدد کارروائیوں کی حمایت کرتا رہا ہے۔ ان نظریات اور کارروائیوں کو روکنے کے لیے اس نے ہمارے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا، اس معاہدے پر عمل درآمد کو کیسے چیک کیا جارہا ہے۔‘‘ ٹیلرسن نے اس سوال کے جواب میں کہا ’’سعودی عرب کے دورے کے موقع پر صدر ٹرمپ نے انسداد دہشت گردی کے سینٹر کا افتتاح کیا ہے۔ جس کے کاموں میں سے ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ انتہا پسند نظریات کی مخالفت میں کتابیں لکھیں گے اور پھر یہ کتابیں اسکولوں میں مساجد میں اور پوری دنیا میں پھیلائی جائیں گی۔ اور صرف یہی نہیں پچھلے تیس برسوں میں جو پرانی کتابیں لکھی گئی تھیں جن سے انتہا پسند نظریات کی ترویج ہوئی تھی ان کو بھی واپس لے کر ختم کیا جائے گا۔‘‘ ترقی یافتہ بننے کے لیے سعودی عرب کو آکسفورڈ، کیمبرج اور اس طرح کی اعلی معیار کی یونی ورسٹیاں کھولنے کا ٹاسک نہیں دیا گیا بلکہ انتہا پسند نظریات کے خاتمے کے نام پر خواتین کی ڈرائیونگ ختم کرنے، سینما کھولنے، موسیقی کے شو منعقد کرنے، دبئی، لندن جیسے عیاشی کے اڈے بنانے، مخلوط تقریبات اور ثقافتی شوز کا اہتمام کرنے کا مشن سونپا گیا ہے جس پر بتدریج عمل کیا جائے گا۔ کیا کیا جائے حکمرانی کے تسلسل کے لیے امریکا کی رضا لازمی ہے۔ سہاگن وہی جو پیا من بھائے تو پھر پیا کی مرضی کے کام بھی کرنا پڑیں گے۔