العدم جماعتوں کے بڑے بڑے کارندوں کو مقابلوں میں مارنے اور ان کی گرفتاری کا دعویٰ کرنے والے پولیس کے نامی گرامی افسران کوچاقو سے وار کرکے خواتین کو زخمی کرنے والے موٹرسائیکل سوار ایک ملزم نے بے بس کردیا ہے ۔یہ چاقو بردار ملزم پولیس کے لیے درد سر بن گیا ہے ۔گزشتہ دو ہفتوں کے درمیان گلستان جوہر میں سات خواتین کو چاقو بردار شخص نے نشانہ بنایا جبکہ جمعرات کی شب گلشن اقبال، یونیورسٹی روڈ اور گلشن جمال میں ملزم نے محض تین گھنٹوں کے دورانیکے بعد دیگرے5خواتین پر چاقو سے وارکرکے ان کو زخمی کردیا ۔ملزم جس دیدہ دلیری سے وارداتیں کررہا ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ بخوبی یہ بات جانتا ہے کہ کراچی پولیس کی اہلیت کتنی ہے ۔چاقو بردار ملزم کی جانب سے زیادہ تر وارداتیں شارع فیصل تھانے کی حدود گلستان جوہر میں کی گئی ہیں تاہم اب ا س کا دائرہ کار گلشن اقبال تک پہنچ گیا ہے ۔ ملزم کہاں سے آتا ہے؟ کہاں جاتا ہے؟ کس آلے سے وار کرتا ہے؟ پولیس کچھ پتا نہیں لگا سکی۔تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم بائیں ہاتھ سے وار کرتا ہے، گزشتہ روز کے واقعات کے بعد تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ ملزم نفسیاتی ہوتا تو ہر واردات منظم نہ ہوتی، اب تک ہونے والی کسی بھی واردات میں ملزم کو شناخت کرنا ناممکن ہے۔ملزم نے گلستان جوہر کے بعد گلشن اقبال میں واردات کی،اگر ملزم نفسیاتی ہوتا تو ایسی حکمت عملی تیار نہیں کر سکتا تھا، پولیس کی جانب سے ملزم کے حوالے سے متضاد دعو ے کیے جارہے ہیں۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی نے چاقو بردار ملزم کے حوالے سے ایک اہم شخص کی گرفتاری کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے
کہ ملزم کے نہایت قریب پہنچ گئے ،ہیں گرفتار ملزم سے تحقیقات کا عمل جاری ہے۔ایڈیشنل آئی جی سندھ کے مطابق گرفتار افراد میں سے ایک شخص کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ یہی چاقو بردار ملزم ہے، تاہم ابھی تفتیش ابتدائی مراحل میں ہے اور اس ملزم کی گرفتاری سے اہم معلومات کے حصول کا امکان ہے۔سندھ کے وزیر صنعت و تجارت منظور حسین وسان کا اس حوالے سے الگ موقف سامنے آیا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ یہ کسی ایک شخص کا کام نہیں ہے بلکہ کوئی گروپ منظم انداز میں اس طرح کی وارداتیں کرکے شہر میں خوف و ہراس پھیلانے کی سازش کررہا ہے ۔جبکہ ڈی جی رینجرز میجر جنرل محمد سعید کے مطابق ملزم ایک ہی ہے جسے جلد گرفتار کرلیا جائے گا ۔پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری ہوں یا وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ، سب نے ان واقعات کا نوٹس لیا ہے ۔مراد علی شاہ کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ ’’آخر یہ ہو کیا رہا ہے ،ایسا تو فلموں میں نظرآتا ہے‘‘۔ اگر اس حقیقت کو مان لیا جائے کہ ان وارداتوں میں کوئی گروہ ملوث نہیں ہے بلکہ صرف ایک شخص خواتین پر حملوں میں ملوث ہے تو پھر محکمہ پولیس کے کردار پر فاتحہ ہی پڑھی جاسکتی ہے ۔شہری سوال پوچھ رہے ہیں کہ کالعدم جماعتوں اور بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کے کارندوں کو محض چند منٹوں میں مقابلوں میں پار کرنے والے پولیس کے ’’بہادر‘‘ افسران کہاں ہیں ؟ یہاں پولیس کواپنی ناکامی تسلیم کرنا ہوگی کہ جہاں کسی’’ حقیقی ملزم‘‘ کو پکڑنے کا معاملہ ہو وہاں وہ بے بس ہوجاتی ہے۔تفتیش کے روایتی طریقہ کار پر کاربند محکمہ پولیس اب تک یہ بھی معلوم نہیں کرسکا کہ تمام کارروائیاں ایک ہی شخص نے کی ہیں یا پھر کوئی گروہ اس کے پیچھے موجود ہے ۔بادی النظر میں دیکھا جائے تو جس منظم انداز میں یہ کارروائیاں ہورہی ہیں اس سے یہی لگتا ہے
کہ کراچی میں خوف و ہراس کی ایک نئی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔پولیس ان خطوط پر تفتیش کرے کہ اس طرح کا ماحول کن گروہوں یا تنظیموں کے لیے سود مند ہے؟ کون ہے جو کراچی کے شہریوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کرکے اپنے ناپاک عزائم کا حصول چاہتا ہے؟یہاں ایک بار پھر شہر میں لگے ہوئے سی سی ٹی وی کیمروں کا ذکر کرنا نہایت ضروری ہے ۔اس حوالے سے پہلے بھی کئیبار نشاندہی کی جاچکی ہے کہ من پسند کمپنیوں کو ان کیمروں کی تنصیب کا ٹھیکا دیا گیا، جنہوں نے انتہائی ناقص کیمرے لگاکرپیسے کھرے کرلیے ۔کیمروں کی مانیٹرنگ کا مربوط نظام نہ ہونے اور ناقص کیمروں کی وجہ سے بھی چاقو بردار شخص یا گروہ کے بارے میں کوئی واضح معلومات حاصل نہیں ہورہی ہیں ۔سی سی ٹی وی فوٹیج پر موٹرسائیکل تو نظرآجاتی ہے لیکن نمبر پلیٹ واضح طور پر نظرنہیں آتی ہے جس کی وجہ سے ملزم تک پہنچنا دشوار ہورہا ہے ۔کچھ حلقے ان وارداتوں کو آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے خلاف سازش بھی قرار دے رہے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کے بعد اے ڈی خواجہ کو مکمل اختیارات ملنے سے صوبائی حکومت خوش نہیں ہے ۔اس طرح کے واقعات سے آئی جی سندھ پر دباؤ میں اضافہ ہوگا اور اگر یہ وارداتیں شہر کے دوسرے علاقوں تک پہنچ گئیں تو بحیثیت سربراہ سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کا اپنے عہدے پر برقرار رہنا انتہائی مشکل ہوجائے گا ۔