اربوں روپے کے اخراجات کے باوجود شہر میں جا بجا کچرے کے ڈھیر

245

کراچی ( رپورٹ : محمد انور ) سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ اربوں روپے سالانہ خرچ کرنے اور2 سال گزرنے کے باوجود کوئی ایک کام بھی پوری طرح شروع نہیں کرسکا۔ نمائندہ جسارت کی تحقیقات کے مطابق ایس ایس ڈبلیو ایم بی تاحال اسپتالوں اور صنعتوں سے نکلنے والے کچرے کو ٹھکانے لگانے کے حوالے سے بنیادی معلومات سے بھی نابلد ہے۔ تحقیقات سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ ملٹی نیشنل ادارے کی طرز پر چلائے جانے والے اس ادارے کا نظام مکمل طور پر وضع بھی نہیں کیا جاسکا۔ 2 سال کے عرصے میں ایس ایس ڈبلیو ایم بی کے ذمے دار افسران نے ادارے کے مرکزی دفتر کے لیے پہلے کلفٹن میں 15 سو مربع گز کا بنگلہ کرائے پر حاصل کیا اور اب شہید ملت روڈ پر الحمرا سوسائٹی میں ایک ہزار گز کا بنگلہ کرائے پر لے لیا ،بنگلوں کے کرائے اور اس کے فرنیچر پر کم و بیش ایک ارب روپے خرچ کیے جاچکے ہیں، لیکن اس ادارے کو جو کام کرنے ہیں وہ اب تک بھر پور طریقے سے شروع ہی نہیں کیے جاسکے۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد نہ صرف شہروں کی صفائی ستھرائی تھا بلکہ وہاں سے ہر قسم کا کچرا اٹھاکر اسے ٹھکانے لگانے کے ساتھ کچرے سے آمدنی کے ذرائع پیدا کرنے تھے۔اس مقصد کے لیے قانون کے تحت بلدیاتی اداروں سے صفائی ستھرائی کا کام واپس لے کر ایس ایس ڈبلیو ایم بی کو دیا گیا تھا۔ لیکن 2 سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود مذکورہ ادارے نے کراچی کے صرف 2 اضلاع شرقی اور جنوبی میں کچرا اٹھانے اور صفائی ستھرائی کا کام چائنا کی ایک غیر معروف فرم کے حوالے کیا جو تاحال معاہدے کے مطابق اپنے امور انجام دینے میں ناکام نظر آرہی ہے۔



جسارت کی تحقیقات کے مطابق ایس ایس ڈبلیو ایم بی کے قیام کے بعد سے پورے شہر میں کچرا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کے ساتھ صفائی ستھرائی کے امور متنازع بن چکے ہیں۔ ڈی ایم سی سینٹرل اور کورنگی یہ امور ایس ایس ڈبلیو ایم بی کے حوالے کرنے سے انکار کرچکی ہے جبکہ ملیر اور غربی نے اس کام سے جان چھڑاکر ایس ایس ڈبلیو ایم بی کے حوالے کردیا ہے لیکن 6 ماہ گزرنے کے باوجود ان اضلاع میں صفائی ستھرائی اور کچرا کون اٹھائے گا؟ ایک سوال بن چکا ہے۔ اسی طرح وسطی اور کورنگی بلدیہ کو مالی بحران کا سامنا ہے۔بلدیہ کورنگی کے چیئرمین نیئر زیدی اور بلدیہ وسطی کے چیئرمین ریحان ہاشمی کا موقف ہے کہ اگر حکومت انہیں فنڈز دیتی رہے تو ہم یہ کام زیادہ بہتر طریقے سے کراسکیں گے۔تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایس ایس ڈبلیو ایم بی کو چلانے کے لیے حکام مبینہ طور پر غیر سنجیدہ نظر آتے ہیں کیوں کہ اس ادارے کے نظام کو بنانے کے لیے ابتدائی کام بھی نہیں کیے جاسکے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس ادارے نے اب تک اسپتالوں اور فیکٹریوں سے خارج ہونے والے کچرے کے بارے میں بھی معلومات حاصل نہیں کی ہیں۔ادارے کے موجودہ ایم ڈی ڈاکٹر اے ڈی سجنانی کا کہنا ہے کہ وہ اسپتالوں اور صنعتوں کے فضلے کے حوالے سے کنسلٹنٹ کا تقرر کرکے معلومات حاصل کررہے ہیں۔ یادرہے کہ عدالت عظمیٰ نے چند ماہ قبل ایس ایس ڈبلیو ایم بی کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے سخت تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ یادرہے کہ شہر بھر میں جگہ جگہ کچر ے کے ڈھیر اور شدید گندگی و غلاظت کے باعث چکن گونیا سمیت دیگر بیماریاں پھیل چکی ہیں۔