خاموشی کی زبان

583

خاموشی کی زبان

]پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ، انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے ڈائرکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے گزشتہ جمعرات کو راولپنڈی میں ایک طویل پریس کانفرنس کی اور ایک طرف بہت سے سوالوں کا جواب دیا تو دوسری طرف کئی نئے سوالات اٹھا دیے اور ایسے موضوعات پر بھی اظہار خیال کر گئے جو فوج کے دائرہ کار میں نہیں آتے ۔ ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ دنوں رینجرز کی طرف سے احتساب عدالت کا گھیراؤ کرنے اور صحافیوں و وکلاء سمیت کئی وزراء کو بھی عدالت میں داخل ہونے سے روکنے پر بعض وزراء کی طرف سے احتجاج کا جواب دینے کے لیے یہ طویل پریس کانفرنس کی گئی ۔ رینجرز نے وفاقی وزیر داخلہ کو بھی داخل ہونے سے روک دیا حالانکہ رینجرز وزیر داخلہ کے ما تحت ہیں ۔ اس پر احسن اقبال کی برہمی سمجھ میں آنے والی بات ہے ۔ اس حوالے سے جنرل آصف غفور نے یہ دعویٰ کیا کہ اگر سپہ سالار کے پاس بھی کارڈ نہ ہو تو ایک سپاہی انہیں بھی روک دے گا ۔ معذرت کے ساتھ ، یہ مبالغہ ہے اور ایک سپاہی کبھی بھی یہ جرأت نہیں کر سکتا ۔ آصف غفور کے علم میں شاید یہ بات نہ ہو کہ آئی ایس آئی یا فوج کے افسر کے اشارے پر اس کو بھی اہم تقریبات میں جانے دیا جاتا ہے جس کے پاس شناختی کارڈ بھی نہ ہو ۔ چنانچہ رینجرز نے اگر سول حکومت کے اہم افراد کو عدالت میں جانے سے روکا ہے تو ظاہر ہے کہ انہوں نے اپنے طور پر یہ فیصلہ نہیں کیا ہو گا ۔ جنرل آصف غفور نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ اعتراف بھی کیا کہ ’’عدالت میں رینجرز ہم نے تعینات کی اور ضروری نہیں کہ ہر حکم تحریری ہو‘‘۔ سول حکومت کی طرف سے یہی سوال تو اٹھایا جا رہا تھا کہ رینجرز کس کے حکم پر آئے ، انہیں کس نے طلب کیا؟ جنرل آصف نے اسی کی وضاحت کرنے کے لیے پریس کانفرنس کی اور اب معاملہ صاف ہو گیا ۔ وزیر داخلہ اور ن لیگ کے دیگر رہنماؤں نے اس معاملے کو ریاست کے اندر ریاست قرار دیا اور پاکستان کو بنانا ری پبلک تک قرار دے دیا ۔ احتساب عدالت میں داخل ہونے سے صحافیوں کو بھی روک دیا گیا تھا جس پر عدالت کے جج نے کہا کہ آئندہ وہ خود صحافیوں کو اندر لے کر جائیں گے ۔ لیکن اگر جج صاحب کو بھی یہ کام کرنے سے روک دیا گیا تو کیا ہو گا ۔ بغیر کسی تحریری حکم و ہدایت کے فوج سب کچھ کر سکتی ہے ۔ نا اہل قرار دیے گئے نواز شریف نے اپنے خطاب میں سقوط ڈھاکا کا ذکر بھی کر ڈالا جس پر آصف غفور نے کہا کہ اگر پیچھے دیکھا تو پیچھے ہی دیکھتے رہ جائیں گے ۔ سقوط ڈھاکا کا ذکر کرنے سے نواز شریف کا اشار فوج کی طرف تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے کے لیے بھی کوئی تحریری حکم جاری نہیں ہوا تھا ۔ بہر حال اتنی بڑی شکست اور رسوائی کو بھلا دینا چاہیے لیکن یہ مشورہ صحیح نہیں کہ ماضی کو بالکل بھلا دیا جائے ۔ قو میں پیچھے دیکھ کر ہی سبق حاصل کرتی اور آگے بڑھتی ہیں ۔ گزشتہ دنوں کور کمانڈرز کی 7گھنٹے طویل کانفرنس ہوئی جس کا کوئی اعلامیہ جاری نہیں ہوا ۔ اس بارے میں پوچھے جانے والے سوال پر میجر جنرل آصف غفور نے بڑا فلسفیانہ جواب دیا کہ ’’خاموشی کی بھی زبان ہوتی ہے۔‘‘ اب اس کا کچھ بھی مطلب لیا جا سکتا ہے ۔ خاموشی کی زبان میں کسے اورکیا پیغام دیا گیا ، اس پر سیاسی تجزیہ کار بحث کرتے رہیں گے ۔ آصف غفور نے اس کے ساتھ یہ کہنا بھی ضروری سمجھا کہ سیاست میں فوج کی مداخلت اور مارشل لا لگنے کا تاثر غلط ہے ۔ لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ قیام پاکستان کے بعد ہی سے فوج سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی رہی ہے اور کئی بار آگے بڑھ کر اقتدار پر قبضہ بھی کر لیا ہے ۔ یہ ایسی حقیقت ہے کہ اس کا ذکرکرنے کو ’’پیچھے دیکھنا‘‘ نہیں کہا جا سکتا ۔ یہ زیادہ پرانی بات بھی نہیں ہے کہ 2008ء ہی میں ایک فوجی آمر سے نجات ملی ہے ۔ ان مارشل لاؤں کی وجوہات ، اسباب اور نتائج پر نظر رکھ کر ہی آئندہ کسی کی طالع آزمائی کو روکا جا سکتا ہے یہ اور بات کہ اس کے لیے بھی فوج کو کبھی تحریری حکم کی ضرورت نہیں پڑی ۔لیکن فوج کے ترجمان کی زبان پر مارشل لا کا ذکر کیوں ، خواہ اس تاثر کی نفی ہی ہو ۔ اس کے پس منظر میں امریکی حکمرانوں کا یہ اشارہ بھی ذہن میں رہے کہ پاکستان کی حکومت عدم استحکام کی شکار ہے اور اس پر امریکا کو تشویش ہے ۔ پاکستان میں کوئی گڑ بڑ ہونے لگے تو امریکا کی طرف سے اشارے آنے لگتے ہیں ۔ در اصل امریکا کو ہر ملک میں ایسا فرد مطلوب ہوتا ہے جس سے براہ راست بات ہوسکے اور جو پارلیمنٹ وغیرہ کو جواب دہ نہ ہو بلکہ امریکا جو کہے اسے تسلیم کرلیا جائے۔ جنرل پرویز مشرف تو صرف ایک ٹیلی فون پر ڈھیر ہوگئے تھے۔ پاکستان کی سرحدوں پر خطرات منڈلارہے ہیں۔ ایسے میں فوج اور سول حکومت کے روابط زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاک فوج بڑی جرأت سے خطرات کا مقابلہ کررہی ہے۔ سول حکومت کو زیادہ احتیاط سے کام لینا ہوگا اور اداروں میں تصادم کو روکنا ہوگا۔ بغیر بلائے رینجرز کی مداخلت کے معاملے کو بھی آپس میں بیٹھ کر سلجھا لینا بہتر ہوتا۔ جنرل آصف نے بھی تسلیم کیا ہے کہ رینجرز وفاقی وزیر داخلہ کے ماتحت ہیں چنانچہ ان کو طلب کرنے اور کہیں متعین کرنے کی ذمے داری بھی سول حکومت کی ہے۔ جنرل آصف غفور نے فوج کے دائرے سے باہر آکر معاشی عدم استحکام اور این اے 120 کے ضمنی انتخاب میں ایک نئی پارٹی ملی مسلم لیگ کے بارے میں بھی اظہار خیال ضروری سمجھا اور کہاکہ ملی مسلم لیگ کا یہ حق ہے کہ سیاسی عمل میں حصہ لے۔ لیکن فوج کے ترجمان کو ملی مسلم لیگ کے حق کی بات کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی؟ اس کا فیصلہ تو ریاست پر چھوڑ دینا چاہیے ورنہ یہ تاثر جائے گا کہ فوج ملی مسلم لیگ کی طرفدار ہے۔ فوج کے ترجمان نے بالکل صحیح کہا کہ کوئی ادارہ ملک سے بالاتر نہیں۔
مسلم ممالک میں بچوں کی ہلاکتیں
دنیا میں بہت سے ممالک میں جنگ کی آگ بھڑک رہی ہے یا مسلح تصادم نظر آتا ہے۔ زیادہ تر یہ آگ مسلم ممالک میں نظر آتی ہے اور انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ اس کا ایندھن بچے بن رہے ہیں، معصوم بچے جو جنگ کا حصہ نہیں ہوتے اور انہیں پتا بھی نہیں چلتا کہ انہیں کس لیے ہلاک کردیاگیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال مسلح تنازعات میں 10 ہزار بچے ہلاک یا زخمی ہوئے۔ سب سے زیادہ بچے افغانستان اور پھر یمن میں مارے گئے۔ اس کے بعد صومالیہ اور شام کا نمبر ہے۔ شام تو کئی طرف سے حملوں کا نشانہ بن رہا ہے اور روس، امریکا اور اسدی فوج کے ہاتھوں روزانہ ہی درجنوں ہلاکتیں ہورہی ہیں۔ جنگی طیارے بم برساتے ہوئے یہ نہیں دیکھتے کہ زد میں بچے آرہے ہیں یا خواتین۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بچوں کی ہلاکتوں میں افغانستان سر فہرست ہے اور وہاں بھی امریکا تباہی پھیلارہاہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مسلم ممالک کے حکمران ان شیطانوں کو تباہی پھیلانے کی دعوت ہی کیوں دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی فہرست میں بچوں کی ہلاکتوں کے ذمے داروں میں سعودی کمان میں تشکیل پانے والے اتحاد کو بھی شامل کرلیاگیاہے۔ سعودی اتحاد کی پڑوسی مسلمان ملک یمن میں کارروائیوں کے نتیجے میں 383 بچے مارے گئے۔ مارنے والوں کو شاید علم نہ ہو کہ وہ مسلمان بچوں کو قتل کررہے ہیں۔ یہ کام فرعون نے کیا تھا مگر اب فرعونوں کی ضرورت نہیں رہی۔ سعودی اتحاد کی طرف سے اسکولوں اور اسپتالوں پر 38 فضائی حملے کیے گئے۔ یمن اور سعودی عرب دونوں پڑوسی مسلمان ملک ہیں لیکن دونوں میں کئی برس سے ایسی جنگ جاری ہے جس میں دونوں کا نقصان ہورہاہے اور بڑی طاقتوں کا اسلحہ فروخت ہورہاہے اور وہ اپنے مفاد کی خاطر آگ بھڑکارہی ہیں۔ ان طاقتوں کا دوہرا فائدہ ہے کہ مسلمان کمزور ہورہے ہیں اور کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہے۔سعودی اتحاد نے عام شہریوں اور املاک پر حملوں کا الزام مسترد کردیا ہے لیکن اقوام متحدہ کے مطابق 60فی صد عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ فضا سے برسائے گئے بم یا راکٹ یہ نہیں دیکھتے کہ کون عام شہری ہے اور کون مقابل صف آرا ہے۔