خواجہ آصف کس کی زبان بول رہے ہیں

387

zc_MF
پہلے ہمارے پاس کوئی وزیر خارجہ نہ تھا سابق ونا اہل وزیراعظم میاں نواز شریف نے وزارت خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھا ہوا تھا اس لیے بعض اوقات خارجہ امور میں ایسی ایسی ’’بونگیاں‘‘ ہوجاتی تھیں کہ پوری قوم حیران ہوتی تھی لیکن جب سے خواجہ آصف وزیر خارجہ بنے ہیں اور جو کچھ وہ فرمارہے ہیں اس سے قوم حیران ہی نہیں پریشان بھی ہورہی ہے ان کے حالیہ بیان نے تو قوم کی پریشانی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ آرمی چیف جنرل باجوہ نے امریکا کے ڈو مور کے مطالبے کے جواب میں کہا تھا ’’نو مور اور اب دنیا کو ڈو مور کرنا چاہیے‘‘ خواجہ آصف امریکا گئے۔ تو وہ اپنے آقاؤں سے ’’ڈو مور‘‘ کے لیے وقت مانگ رہے ہیں۔ انہوں نے نیو یارک میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کو ’’نو مور‘‘ نہیں ’’ڈو مور‘‘ کرنا چاہیے لیکن اس کے لیے وقت چاہیے انہوں نے کہاہے کہ حقانی نیٹ ورک اور حافظ سعید جیسے عناصر پاکستان کے لیے بوجھ ہیں یہ لوگ کبھی امریکا کے لاڈلے تھے، وائٹ ہاؤس میں دعوتیں اڑاتے تھے اب پاکستان کے لیے وبالِ جان بن گئے ہیں

ان سے چھٹکارا حاصل کرنے میں وقت لگے گا۔ وزیر خارجہ کے اس بیان پر حافظ محمد سعید نے جو ان دنوں نظر بند ہیں خواجہ آصف کے خلاف دس کروڑ ہرجانے کا دعویٰ دائر کردیا ہے۔ حافظ صاحب نے اپنے دعوے میں کہاہے کہ وائٹ ہاؤس میں دعوتیں اڑانا تو کجا وہ تو اس کے قریب سے بھی نہیں گزرے انہوں نے کبھی امریکا کا دورہ نہیں کیا ہمارے دوست کہتے ہیں کہ حقانی نیٹ ورک اگر پاکستان میں موجود ہے تو اس کے لیڈروں کو بھی خواجہ آصف کے خلاف ایسا ہی دعویٰ دائر کرنا چاہیے کیونکہ یہ لوگ بھی اس زمانے کی پیداوار ہیں جب افغانستان سے روس کی پسپائی کے بعد افغان جہاد سے امریکا کا رومانس ختم ہوچکا تھا اور وہ افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑ کر واپس چلا گیا تھا جب افغانستان میں روسی مداخلت کے خلاف افغان عوام کا جہاد جاری تھا اور امریکا روس سے بدلہ لینے کے لیے خود بھی اس ہولی وار میں آکودا تھا اور افغانوں کی دامے درمے مدد کررہاتھا تو ریکارڈ بتاتا ہے کہ اس زمانے میں صرف ایک افغان لیڈر نے امریکا کا دورہ کیا تھا اور وہ تھے گلبدین حکمت یار جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیو یارک گئے تھے اس موقع پر امریکی صدر رونالڈریگن نے انہیں وائٹ ہاؤس آنے کی دعوت دی لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ صدر جنرل ضیا الحق بھی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے امریکا میں موجود تھے انہوں نے بھی حکمت یار کو آمادہ کرنے کی کوشش کی، بہت دباؤ ڈالا حتیٰ کہ دھمکی بھی دی لیکن حکمت یار نے کوئی اثر قبول نہ کیا اس طرح افغان لیڈر کے ساتھ امریکی صدر کی ملاقات کی حسرت دل کی دل میں رہ گئی۔



ہم مانتے ہیں کہ خارجہ امور خواجہ آصف کا میدان نہیں ہیں انہیں وقت گزاری کے لیے وزیر خارجہ بنایاگیا ہے لیکن انہیں اس منصب کے تقاضے کو پورے کرنے چاہییں۔ اگر انہیں امریکا کی مسلط کردہ ’’وار آن ٹیرر‘‘ کی تاریخ اور اس کے پس منظر کا کچھ علم نہیں ہے تو انہیں دفتر خارجہ کے کسی بابو سے بریفنگ لے لینی چاہیے تھی تاکہ جو کچھ انہوں نے کہاہے اس کا مذاق نہ اڑایا جاتا۔ آیئے ہم بتاتے ہیں کہ خواجہ آصف نے جس حوالے سے حافظ سعید اور حقانی نیٹ ورک کا ذکر کیا ہے اس میں ان دونوں کا کہیں ذکر بھی سننے میں نہیں آتا۔ روس کے خلاف افغان جہاد میں حافظ سعید کا کوئی کردار نہیں ہے اس زمانے میں تو ان کی کوئی تنظیم بھی موجود نہیں تھی اور وہ خود انجینئرنگ یونیورسٹی میں اسلامیات کے استاد تھے۔ 1980 کی دہائی کے آخر میں افغانستان سے روس کی ذلت آمیز پسپائی کے بعد جب مقبوضہ کشمیر میں جہاد کا غلغلہ بلند ہوا اور اہل کشمیر نے فیصلہ کیا کہ جس طرح افغان عوام نے جہاد کی قوت سے سفید ریچھ کو اپنے ملک سے نکالا ہے اسی طرح وہ بھی اپنے وطن سے کالے ریچھ کو نکال باہر کریں گے۔ چنانچہ جہادی تنظیمیں وجود میں آئیں اور مقبوضہ علاقہ قابض بھارتی فوجوں کے خلاف جہاد کے نعروں سے گونجنے لگا۔پاکستان نے بھی سرکاری سطح پر مجاہدین کی حمایت کا فیصلہ کیا اور ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جو جہاد کشمیر میں حصہ لینا چاہتے تھے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب حافظ محمد سعید منظر عام پر آئے اور انہوں نے تعلیم کا پیشہ ترک کرکے جہاد کشمیر میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے ’’لشکر طیبہ‘‘ کے نام سے جہادی تنظیم قائم کی اور اس کے مجاہدین مقبوضہ کشمیر میں داد شجاعت دینے لگے یہ سلسلہ نائن الیون تک جاری رہا۔ نائن الیون کے بعد سارا منظر نامہ بدل گیا، جنرل پرویز مشرف نے امریکا کے آگے سرنڈر کرنے کے بعد اس کے حکم پر کنٹرول لائن کے راستے مجاہدین کی نقل و حرکت پر پابندی لگادی اور پاکستان میں موجود تمام جہادی تنظیموں کو خلاف قانون قرار دے دیا۔ چنانچہ حافظ سعید صاحب کی تنظیم لشکر طیبہ بھی اس پابندی کی زد میں آگئی۔ انہوں نے قانون کا احترام کرتے ہوئے لشکر طیبہ سے علیحدگی اختیار کرلی اور اپنی تمام تر توجہ سماجی فلاحی اور دینی سرگرمیوں پر مرکوز کردی، اس مقصد کے لیے انہوں نے جماعۃ الدعوۃ کے نام سے نئی تنظیم قائم کی اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے نام سے جماعۃ الدعوۃ کا فلاحی شعبہ قائم کرکے اس کا دائرہ پورے ملک میں پھیلادیا۔ جماعت اسلامی کی الخدمت فاؤنڈیشن کے بعد یہ ملک میں سماجی خدمت کا سب سے بڑا ادارہ ہے جو قابل رشک سماجی خدمات انجام دے رہا ہے اور اس کا اعتراف عالمی سطح پر بھی کیاگیا ہے۔
پاکستانی عدالتیں حافظ سعید اور ان کی جماعت کو کلیئر کرچکی ہیں ان پر دہشت گردی یا خلاف قانون سرگرمیوں کا الزام نہیں ہے بھارتی لابی کے نقطہ نظر سے اگر ان پر کوئی الزام ہے تو یہ کہ وہ کشمیر کو بھارت کی غلامی سے نکالنا چاہتے ہیں اور پاکستان کے خلاف بھارت کی آبی جارحیت پر کڑی تنقید کرتے ہیں۔ یہی چیز بھارت کو اکھر رہی ہے وہ حافظ سعید کو اپنا دشمن سمجھتا ہے اس نے امریکا کو بھی اپنی ہاں میں ہاں ملانے پر آمادہ کرلیا ہے حالانکہ حافظ سعید کا امریکا سے کچھ لینا دینا ہی نہیں ہے، پاکستان میں حافظ سعید کو امریکا اور بھارت کے دباؤ پر نظر بند کیا گیا ہے ان کی نظر بندی کے خلاف ہائی کورٹ میں رٹ زیر سماعت ہے۔ عدالت نے وزارت داخلہ سے جواب مانگا ہے کہ حافظ سعید کو آخر کیوں نظر بند کیا گیا ہے لیکن وہ ابھی تک عدالت میں کوئی اطمینان بخش جواب جمع نہیں کراسکی۔ وزارت داخلہ حافظ سعید کا دہشت گردی سے کوئی تعلق ثابت نہیں کرسکتی نہ ہی انہیں امن و سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے سکتی ہے ان پر مذہبی منافرت پھیلانے کا الزام بھی نہیں لگایا جاسکتا لیکن وہ اس کے باوجود حافظ سعید کی نظر بندی میں توسیع کرنے پر مجبور ہے کہ حکومت خواہ میاں نواز شریف کی ہو یا شاہد خاقان عباسی کی، بھارت اور امریکا کا دباؤ نظر انداز نہیں کرسکتی۔
خواجہ آصف کہتے ہیں کہ حافظ سعید کی تنظیم کالعدم ہے اور وہ خود نظر بند ہیں لیکن ہمیں مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔ مزید اقدامات سے آخر ان کی کیا مراد ہے؟ کیا وہ حافظ سعید کو سولی پر لٹکانا چاہتے ہیں۔ یہ خواہش بھارت کی ہے اس نے حافظ سعید کے سر کی قیمت لگا رکھی ہے خواجہ آصف پاکستان کے وزیر خارجہ ہیں وہ اپنے بیان کا جائزہ لیں اور خود فیصلہ کریں کہ وہ کس کی زبان بول رہے ہیں؟