پاکستانی نظام کی ناکامی کی باتوں کامطلب یہ ہے کہ کوئی ایسی قوت حرکت میں آئے جس کے بارے میں یہ تاثر قائم ہے کہ وہ کبھی ناکام نہیں ہوتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے ریکارڈ میں بڑی بڑی ناکامیاں رکھنے کے باوجود اسے ناکام کہنے کی کوئی ہمت نہیں کر سکتا ۔ اب خود پارلیمنٹ کے اہم اداروں سینیٹ کے چیئر مین میاں رضا ربانی کے منہ سے بار بار یہ الفاظ کون نکلوا رہا ہے کہ پارلیمنٹ ناکام ہے ۔ پارلیمنٹ کمزور ہے ۔ گویا یہ بھی جسٹس دوست محمد کے ریمارکس کی تائید ہے کہ نظام ناکام ہو چکا ہے ۔ کالعدم تنظیمیں بھی الیکشن لڑ رہی ہیں ۔ حالانکہ رضا ربانی کی پارٹی جب ملک میں حکمران تھی اس وقت بھی طلبہ یونینوں کو عدم سے وجود میں نہیں لا سکی اور اب کم از کم سندھ میں طلبہ یونین الیکشن کروا دیں تاکہ کالعدم تنظیمں کالعدم رہیں اور اصل نمائندے سامنے آئیں ۔ جسٹس دوست محمد کے ریمارکس کے کچھ دنوں بعد جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دے دیے کہ جھوٹی گواہی کے باعث ملزمان کا بری ہونا اللہ کا عذاب ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ بات معلوم ہونے کے باوجود جھوٹے گواہ عدالتوں میں گواہیاں دیتے آ رہے ہیں ۔ اور یہ کہ گواہوں کا جھوٹ کون پکڑے گا ۔ یہ کام تو عدالتوں ہی کو کرنا ہو گا ۔ استغاثہ اور صفائی کے وکلا تو اپنے گواہوں کو سچا اور دوسرے کے گواہ کو جھوٹا ہی قرار دے رہے ہوں گے ۔ جب یہ معلوم ہو گیا کہ گواہ جھوٹی گواہیاں دے رہے ہیں تو پھر ان کی گواہیاں کیوں قبول نہیں کی جائیں ۔ اسی لیے بار بار کہا جاتا ہے کہ عدالتیں انگریز کے قانون کے بجائے قرآن پاک تھام لیں ۔ جب جج قاضی بنیں گے تو وہ گواہوں کے جھوٹ بھی پکڑیں گے اور ایک مرتبہ ایک گواہ جھوٹی گواہی پر پکڑا جائے تواسے عمر بھر گواہی سے روک دیا جائے ۔ اسی طرح نادرا جیسے ادارے اور نظام کی موجودگی میں ایسے گواہ کو تو پورے ملک بلکہ دنیا بھر میں پکڑا جاسکتا ہے ۔ جوں ہی شناختی کارڈ نمبر کمپیوٹر میں ڈالا جائے گا اس کا سارا کچا چٹھا سامنے آ جائے گا ۔ لیکن یہ کام صرف کمپیوٹر یا وکیل پر نہیں چھوڑا جا سکتا ۔ ججوں کوبھی سچے اور جھوٹے میں فرق کرنے کا فن آنا چاہیے ۔ یہ کمی تو وہیں ہے عدالتیں اسی لیے تو سست روی کے لیے مشہور ہیں ۔ یعنی قانون اندھا ، نیب نابینا اور ملکی نظام لنگڑا ہو چکا ہے ۔ وزیر داخلہ کو پتا ہی نہیں کہ اسلام آباد احتساب عدالت میں رینجرز کو کس نے بلایا ور رینجرز اتنے فرض شناس کہ اپنے باس وزیر داخلہ ہی کو اندر نہیں جانے دیا ۔ اس پر تو وزیر داخلہ کو چاہیے کہ اس رینجرز اہلکار کو انعام دیں لیکن وہ تو استعفا دینے کی باتیں کر رہے ہیں ۔ کیا بے بسی سی بے بسی سی ہے!
ایک مذاق الگ چل رہا ہے یہ چند روز بعد الطاف گروپ کے خلاف ایک اور مقدمہ ، مزید اسلحہ برآمد کچھ ٹارگٹ کلرز پکڑے جاتے ہیں اور اسلحہ تو بار بار پکڑا جا چکا ۔۔۔ اب الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ بھی درج ہوا ہے جس میں ڈپٹی میئر کراچی بھی نامزد ہیں۔ لیکن ہوا کریں ۔ فاروق ستار یا بابر غوری ، مصطفیٰ کمال ، میئر کراچی وسیم اختر ، سلیم شہزاد سب ہی تو کسی نہ کسی مقدمے میں نامزد ہیں ان کے خلاف تو کوئی کارروائی نہیں ہوئی ۔ بس مقدمہ درج کر کے اسے چلانے اور اس کے ذریعے اخبارات اور میڈیا کو مزید کھلونے دے دیے جاتے ہیں ۔ اتنے سارے مقدمات پہلے بن چکے ہیں ان پر کیا کارروائی ہوئی ۔ جہاں تک عدلیہ ،پارلیمان اور سیاستدانوں کے نمائندوں کے بیانات اور انکشافات کا تعلق ہے تو اس سے یہ نتیجہ ہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اس ملک میں اندھیر نگری ہے ۔ اور جہاں اندھیر نگری ہوتی ہے وہاں راج بھی چوپٹ ہوتا ہے ۔ اس کے لیے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ۔ سڑکوں پر بازاروں میں ، پولیس تھانوں میں ۔ سرکاری دفتروں میں ہر جگہ راج چوپٹ ہی ہے ۔ جب سب نا بینا اندھے لنگڑے اور ناکارہ ہوں گے تو چوپٹ راج ہی ہو گا ۔