خواجہ آصف پھربول پڑے

437

Edarti LOHپاکستان کو طویل عرصے بعد ایک وزیر خارجہ ملا تو وہ بھی اپنا نہیں رہا۔ جب سے پاکستانی وزیر خارجہ امریکا گئے ہیں پاکستان کے عوام کے زخموں پر مزید نمک چھڑک رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سفارتی آداب سے بالکل بے بہر ہ کوئی سیاسی رہنما کسی جلسے میں بڑھکیں مار رہا ہے۔ کبھی حافظ سعید ، جماعت الدعوۃ اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف بیان دیا تھا تو اب اس سے بھی آگے بڑھ کر فرمانے لگے کہ امریکا دہشت گردوں کے خفیہ مقامات کی نشاندہی کرے بمباری ہم کریں گے۔ امریکی ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ امریکی ترجمان یا کوئی امریکی سیاستدان محسوس ہو رہے تھے۔ کہتے ہیں ہم افغانوں کو پاک افغان سرحد کی مشترکہ نگرانی کی پیش کش کرچکے ہیں ۔ ہم افغان حکام کو اپنے ساتھ بٹھا کر ہیلی کاپٹر میں لے جائیں گے۔ وہ بتائیں جانا کہاں ہے ہم جائیں گے۔ اگر وہ ہم سے چاہتے ہیں کہ ہم ان کا کھوج لگائیں تو ہم لگائیں گے۔ لیکن کھوکھلے الزامات قبول نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنے پہلے والے بیان کا اعادہ کیا کہ گھر کو درست کرنے کی بات انوکھی نہیں ہے۔ انہوں نے ایک اور انکشاف کیا کہ طالبان پر پاکستان سے زیادہ ماسکو اور خطے کے دیگر ممالک کا اثر و رسوخ ہے۔ گویااگر افغانستان میں پاکستان کا کوئی اثر سمجھا جاتا تھا تواس کے خاتمے کا باضابطہ اعتراف کرلیا گیا ہے۔ اسی طرح موصوف یہ بھی کہہ گئے کہ ہمیں تو طالبان سے بھی اعتماد کی کمی کا سامنا ہے۔ ظاہرسی بات ہے اگر طالبان کو اعتماد ہوتا تو وہ ماسکو اور خطے کے دوسرے ممالک کے اثر و رسوخ میں کیوں آتے۔ یہ بات تو کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔



خواجہ صاحب بار بار امریکی ذرائع ابلاغ کے سامنے یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکا نشاندہی کرے ہم بمباری کریں گے۔ لیکن پھر بھی یہ چاہتے ہیں کہ امریکا کے ساتھ باہمی اعتماد پر مبنی تعلقات قائم رہیں۔ وہ اب بھی اس غلط فہمی میں ہیں کہ امریکا پاکستان کے ساتھ مل کر خطے میں امن، استحکام اور خوش حالی کے کسی منصوبے پر بھی کام کرسکتا ہے۔ ایک جانب وہ خود بمباری کی بات کررہے ہیں اور دوسری جانب یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ٹھکانے افغانستان میں ہیں ۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ خواجہ صاحب نے اپنے پورے دورۂ امریکا میں مجموعی طور پر یہ تاثر دیا ہے کہ کچھ نہ کچھ گڑبڑ پاکستان میں ضرور ہے جب آپ کچھ گڑبڑ کااعتراف کررہے ہیں تو باقی الزامات دوسرا لگائے گا ۔ اس قسم کی گفتگو کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے اب تک لگائے گئے وہ الزامات محض الزامات تھے کہ بھارت اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیاں پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ پاکستانی حکومت تو یہ بھی کہتی رہی ہے کہ ہمارے پاس اس کے ٹھوس ثبوت ہیں ۔ اور خواجہ صاحب کے بیان کے بعد کلبھوشن یادو کے اعترافات کا کیا ہوگا؟ معلوم نہیں یہ پیشکش قبول کی گئی یا نہیں کہ آپ ہمارے ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر بتائیں کہ کہاں جانا ہے ۔۔۔ یہ فوجی ایکشن ہے یا رکشہ ٹیکسی چلا رہے ہیں کہ ہاں بھائی بتاؤ کتنے پیسے لو گے ،فلاں جگہ جانا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر امریکا یا افغانستان کے افسران نے کہا کہ چلو اسلام آباد یا جی ایچ کیو پر بمباری کرنی ہے تو کیا کر ڈالیں گے۔



چلیں یہ تو محض جملۂ معترضہ تھا۔ لیکن اگر وہ کسی ایسے مقام کی نشاندہی کردیں جہاں بمباری کرنا پاکستان کے لیے کسی طور مناسب نہ ہو تو کیا ہیلی کاپٹر یا طیارے میں بیٹھ کر اس بات کا فیصلہ کیا جاسکے گا کہ یہ کام کیا جائے یا نہیں ۔ خواجہ صاحب ایسے غیر محتاط بیان سے پرہیز کریں تو بہتر ہے بلکہ یہ زیادہ مناسب ہے کہ گرما گرم بیانات دینے کے بجائے کوئی بیان ہی نہ دیں۔ ویسے وزیر خارجہ اور وزارت خارجہ ساری دنیا میں نہایت محتاط اور مبہم بیانات جاری کرتی ہے۔ لیکن ہمارے وزیر صاحب بیان بازی کے زیادہ شوقین ہیں ۔ انہیں بھی احتیاط کرنی چاہیے اور اگر ان کے وزیر اعظم کو میاں نواز شریف کی وکالت سے فرصت ہو تو وہ وزیر خارجہ کو کسی معاملے میں رہنمائی دیں۔ لیکن یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ عبوری حکومت یا عارضی حکومت جس دور سے گزر رہی ہے اس میں کوئی کسی کی رہنمائی نہیں کرسکتا۔ شاید خواجہ آصف خود کو شاہد خاقان سے زیادہ سینئر سمجھتے ہوں گے۔ پوری کابینہ میں اسحق ڈار یہ کام کرسکتے تھے جو خود مشکل میں ہیں۔ میاں شہباز شریف کو موقع ملا تھا لیکن میاں نواز شریف نے پارٹی سنبھال کر یا نا اہلی کے باوجود صدارت سنبھال کر ان کا موقع ضائع کردیا۔ چودھری نثار الگ بے وقعت ہوئے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں الٹے سیدھے بیانات دینے والوں کے مزے ہیں انہیں کون روکے گا۔ بہرحال خواجہ صاحب کی ملک میں جو بھی حیثیت ہودنیا ان کے بیانات کو پاکستان کا سرکاری موقف ہی سمجھے گی۔ اور یہ خطرناک بات ہے۔