پاکستان جیسے غیر مستحکم ملک میں اس کھینچا تاتی کو سول ملٹری کشمکش کا نام دے کر جمہوریت اور آمریت کی لڑائی بنا دیا جاتا ہے۔
سیاست دانوں کو ملکی اسٹیبلشمنٹ کا خوف اور مطلق اختیار کا سہانا خواب دکھا کر رام کیا جاتا ہے اور یوں طاقت کی ایک لڑائی چھڑ جاتی ہے۔ طاقت کی لڑائی کا فیصلہ پھر زیادہ طاقتور کی جیت کے اصول پر ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی اپنی مجبوریوں کی وجہ سے اس راہ میں جھجھک کر، لجا کر، شرما کر، پھونک پھونک کر قدم اُٹھاتی ہے اور بوقت ضرورت اپنا مقام اور پوزیشن تبدیل کرنے میں دیر نہیں کرتی مگر میاں نوازشریف اس معاملے میں اڑیل واقع ہوئے ہیں جو لڑتے لڑتے تین بار اپنا اقتدار گنوا بیٹھے ہیں۔ وہ برسر اقتدارآئے تو اس زعم کا شکار تھے کہ ان کا مینڈیٹ بھارت سے دوستی کا ہے حالانکہ انہوں نے بھولے سے کسی انتخابی جلسے میں بھارت سے دوستی کا عندیہ نہیں دیا۔ اب وہ محروم اقتدار ہو چکے ہیں تو ان کے دست راست وزیر خارجہ خواجہ آصف نے امریکا میں یہ گہری بات کی کہ ان کے قائد نے بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کی بہت قیمت چکائی ہے۔ گویا کہ میاں نوازشریف کی نااہلی کی اصل وجہ بھارت سے ان کے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ پاکستان کا فتح اللہ گولن کوئی سویلین ہے یا فوجی اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو عالمی اسٹیبلشمنٹ کے اُڑن کھٹولے میں بیٹھ کر ملک اور ریاستی اداروں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرے اس ملک کا فتح اللہ گولن ہے۔
ترکی میں فوج کے ایک چھوٹے سے گروہ نے طیب اردوان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کی۔ پرتیں کھلتی چلی گئیں تو معلوم ہوا کہ بغاوت کرنے والوں نے طیب اردوان اور حکومت کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کو محروم اقتدار ہی نہیں جان سے مار ڈالنے کی منصوبہ بندی بھی کر رکھی تھی۔ جہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ ترکی کے عوام نے اس حقیر سی اقلیت کے عزائم اور اقدامات کے آگے جانیں قربان کر کے بند باندھا وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ فوج کا ایک بڑا حصہ اس بلکہ اصل فوج اس عمل سے الگ رہی۔ اس بغاوت کی ساری زد چونکہ طیب اردوان پر پڑتی تھی اس لیے ان کا بیان سب سے معتبر تھا۔ طیب اردوان نے اس بغاوت کا محرک امریکا میں بیٹھے ترک صوفی فتح اللہ گولن کو قرار دیا اور بعد میں اردوان نے کھل کر اس بغاوت میں امریکا کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔ یہ مشرق وسطیٰ کے بکھرے اور خون میں لتھڑے ملکوں کے قریب اور یورپ کے پہلو میں موجود ایک مستحکم مسلمان ملک کے وسائل اور اختیار پر کنٹرول اور اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی ایک توانا کوشش تھی۔ ایک ایسا شخص جس پر برسرعام سیکولر جمہوریہ کو دوبارہ خلافت کے دور میں لے جانے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ ملک میں اداروں کے درمیان کشمکش تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ عدلیہ، فوج اور سویلین حکومت آمنے سامنے آتے جا رہے ہیں۔ اب معاملہ طاقت کی کھلی کشمکش میں ڈھلتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔
قومی اسمبلی نے الیکشن بل کو منظور کرتے ہوئے میاں نوازشریف کے دوبارہ مسلم لیگ ن کا صدر بننے کی راہ ہموار کی۔ اسی روز میاں نوازشریف احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور وہاں رینجرز کی تعیناتی کے معاملے پر ایک ناخوش گوار صورت حال پیدا ہوئی، وفاقی وزیر داخلہ احتساب عدالت میں داخل نہ ہو سکے اور انہوں نے اپنا غصہ کھل کر میڈیا کے سامنے اُتارا۔ الیکشن بل کی منظوری کو شیخ رشید احمد نے عدلیہ پر راکٹ لانچر اور ڈائنامائیٹ مارنے کے مترادف قرار دے کر بہت گہری بات کی۔ ان کی یہ تقریر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ اس کے دوسرے ہی روز اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں مسلم لیگ ن کی جنرل کونسل کے اجلاس میں میاں نوازشریف کو دوبارہ پارٹی کا صدر منتخب کیا گیا۔ کنونشن سینٹر میں مسلم لیگ ن کے کنونشن میں بہت پر زور اور پر شور تقریریں ہوئیں جن کا مجموعی روئے سخن فوج اور عدلیہ کی طرف تھا۔ اس کنونشن میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیراعلیٰ پنجاب سمیت اعلیٰ حکومتی شخصیات کی موجودگی اور پرجوش تقریروں نے سول ملٹری اور سول عدلیہ کشمکش کے دھندلاتے ہوئے تاثر کو گہرا کر دیا۔ اس طرح کنونشن سینٹر میں مسلم لیگ ن نہیں بلکہ حکومت سراپا احتجاج اور ماتم کناں رہی۔ اس کنونشن میں چودھری نثار علی خان تو موجود رہے مگر انہوں نے خطاب نہیں کیا بلکہ میاں نوازشریف کا خطاب شروع ہوتے ہی وہ کنونشن سے اُٹھ کر چلے گئے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے میاں نوازشریف کے مشیروں پر تنقید اور کچھ جانے پہچانے لوگوں سے مشورہ کرنے کی بات کر کچھ نہ کہتے ہوئے بہت کچھ کہہ ڈالا۔ چودھری نثار علی خان کو مسلم لیگ ن اور جی ایچ کیو کے درمیان ایک پُل کے طور پر پہچانا جاتا رہا ہے۔ اسلام آباد میں مسلم لیگ ن کا کنونشن منعقد ہورہا تھا تو عین اسی وقت جی ایچ کیو میں کورکمانڈرز کا ایک اہم اجلاس منعقد ہورہا تھا۔ ماضی میں پاکستان میں اس طرح کی صورت حال پیدا ہوتی رہی ہے اور ہر بار اس کا نتیجہ جمہوری نظام کے لیے اچھا نہیں رہا۔ اس بار بھی آثار وقرائن ’’سب اچھا‘‘ ہونے کی نوید نہیں سنا رہے بلکہ اس کشمکش سے کسی حادثے کے سائے بہت آسانی سے محسوس کیے جا سکتے ہیں۔