ان کا اشارہ چودھری نثار علی خان کی طرف تھا، جن کے مشورے کو نوازشریف نے ہمیشہ نظر انداز کیا۔ چودھری نثار علی خان نے اس تقریب سے خطاب نہیں کیا اور وہ نواز شریف کی تقریر شروع ہوتے ہی اٹھ کر چلے گئے۔ یہ اس بات کا بالواسطہ اشارہ بھی ہے کہ وہ فوج اور عدلیہ کے خلاف نواز شریف کے بیانیہ سے اتفاق نہیں کرتے۔ شہباز شریف کی یہ کشادہ دلی کہہ لیں کہ انہوں نے پارٹی کے اندر زیادتی کے باوجود چودھری نثار علی خان والا رویہ اختیار نہیں کیا۔ وہ پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں اور صبر و استقامت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
شہباز شریف نے اپنی تقریر میں جن کا ذکر کیا ہے، کچھ ایسے متحرک ہوئے کہ نوازشریف کو اپنے ہی چھوٹے بھائی سے خوف زدہ کر دیا، نوازشریف کو یہ کہہ کر بھی ڈرا دیا گیا کہ شہباز شریف کے آگے آنے سے وہ اور ان کے بچے پیچھے چلے جائیں گے، اس لیے پارٹی یا حکومت کی باگ ڈور شہباز شریف کو سونپنے کی غلطی نہ کی جائے۔ حقائق یہ ہیں کہ شہباز شریف نے ایک چھوٹے بھائی کی حیثیت سے نوازشریف کو ہمیشہ اپنا لیڈر تسلیم کیا ہے، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ شہباز شریف، نوازشریف کے لیے ریڑھ کی ہڈی جیسا مقام رکھتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ دونوں بھائی سب سے پہلے ایک دوسرے سے مشاورت کریں، پھر کسی کی سنیں، لیکن جب شہباز شریف بھری تقریب میں اپنے بھائی کو مخاطب کرتے ہوئے کہیں کہ آپ گاڑیاں اور وزارتیں لینے والوں کے مشوروں سے بچیں، تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ خود کو بھائی کے سامنے بے بس سمجھتے ہیں۔
یہ بات بھی کہی اور سمجھی جارہی ہے کہ نوازشریف نے اپنا پیچیدہ راستہ اختیار کر کے مسلم لیگ (ن) کی دوبارہ قیادت تو حاصل کر لی ہے، لیکن ابھی اس ترمیم کو چیلنج ہونا ہے جس کے تحت وہ عدالت عظمیٰ سے نا اہلی کے باوجود پارٹی کے صدر منتخب ہو گئے ہیں، پھر اخلاقی طور پر بھی ان کے لیے عدالت عظمیٰ کی طرف سے نا اہلی کے بعد خود کو کسی عہدے کے قابل سمجھنا ان کی عزت افزائی کا باعث نہیں بن سکتا۔ اگر اس کے بجائے وہ خود کو فی الوقت عہدوں کی دوڑ سے باہر رکھتے اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت شہباز شریف کو سونپ دیتے تو یہ ایک اچھا سیاسی فیصلہ ہوتا۔ پارٹی بھی منظم رہتی اور اداروں کے درمیان محاذ آرائی کا تاثر بھی جنم نہ لیتا۔ نوازشریف ایک قائد کے طور پر اپنا کردار ادا کرتے، مگر انہوں نے وہی کیا جو ان کے عقاب چاہتے تھے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ نوازشریف کی ہدایت پر جلد ہی احتساب آرڈیننس میں بھی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں اور ایسی ترامیم کی جائیں گی جن کے بعد نوازشریف کی نا اہلیت بھی ختم ہو جائے گی اور عدالتوں سے ریلیف بھی مل جائے گا۔ ایسی چیزیں چاہے کتنے ہی قانون اور قاعدے کے مطابق کی جائیں، ان کی اخلاقی ساکھ بہت کمزور ہوتی ہے۔
جب یہ چیز واضح ہو جائے کہ قانون سازی اور ترامیم کسی ایک شخص کو فائدہ دینے کے لیے کی جا رہی ہیں تو ان کی قانونی حیثیت بھی متنازع ہو جاتی ہے۔ حکمران جماعت تیزی سے نوازشریف کی حیثیت کو بحال کرانا چاہتی ہے۔ اس تیزی میں غلطیاں بھی ہو رہی ہیں اور مزاحمت بھی جنم لے رہی ہے۔
اس سارے منظر نامے سے ابھرنے والا اصل سوال یہ ہے کہ جس قسم کی فضا جنم لے چکی ہے، کیا اس کی شدت میں کوئی کمی آئے گی۔ کیا نوازشریف صدر بننے کے بعد چپ ہو کر بیٹھ جائیں گے یا ان کی آواز میں مزید شدت اور مزاحمت پیدا ہو جائے گی؟۔ اور کیا محاذ آرائی کا راستہ بغیر کسی حادثے کے ہمیں منزل پر پہنچا دے گا؟۔ ایک طرف نوازشریف کی مزاحمت اور دوسری طرف منظم ردعمل، اور تیسری جانب نواز شریف کے سیاسی ساتھی وزیر داخلہ احسن اقبال‘ جو ریاست کے اندر ریاست کی بات کر رہے ہیں اپنی باتوں سے وہ ماحول کو اس حد تک گرما گئے کہ صورت حال ابتری کی طرف چلی گئی۔ اس جذباتی اور مزاحمتی فضا میں کون ہے جو جلتی پر پانی ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟۔ وہ بلاشبہ شہباز شریف ہیں۔ وہ بات کرنے کا سلیقہ بھی جانتے ہیں اور صورت حال کو پوائنٹ آف نوریٹرن تک جانے بھی نہیں دیتے۔ کاش نوازشریف ان کی باتوں پر کان دھریں اور سقوط ڈھاکا کی بات بے بات مثال دینے کے بجائے اپنی اصلاح کریں۔