اسٹیٹ بینک کی حالیہ مانیٹری پالیسی

282

zc_Rizwan-Ansariعلم معاشیات کی رو سے کسی ملک میں معاشی سرگرمیوں کو وسعت دینے، ترقی کی رفتار تیز کرنے، معاشی بحران کو ختم کرنے اور استحکام کی طرف جانے کے لیے حکومت کے ہاتھ میں دو ہتھیار ہوتے ہیں جن میں سے ایک کو مالیاتی پالیسی (Fiscal policy) اور دوسرے کو زرعی پالیسی (Monetary policy) کہا جاتا ہے۔ حکومت ان دونوں ہتھیاروں کے ذریعے معاشی مسائل حل کرنے اور ملک میں خوشحالی لانے کی کوشش کرتی ہے لیکن نتائج کا انحصار حکومتی معاشی ماہرین اور ان کی ٹیم کی اہلیت، صلاحیت اور جذبہ حب الوطنی پر ہوتا ہے۔
مانیٹری پالیسی کی تیاری عموماً ہر ملک میں اس کے مرکزی بینک کے ذمے ہوتی ہے، اصولی طور پر ایک مرکزی بینک کو اپنی ذمے داریاں ادا کرنے کے معاملے میں آزاد ہونا چاہیے تاکہ وہ ملک کے معاشی حالات اور تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے مانیٹری پالیسی وضع کرے مگر دنیا کے زیادہ تر ممالک میں حکومت کے پیش نظر سیاسی مقبولیت، عوام کی رضامندی اور سیاسی مفادات ہوتے ہیں جو بعض اوقات معاشی مفادات سے ٹکراتے ہیں مثلاً معاشی تقاضے یہ ہوتے ہیں کہ بجٹ میں غیر پیداواری اخراجات کم کیے جائیں، حکومتی اہلکاروں کی شاہ خرچیاں کم کی جائیں، صدر، وزیراعظم، وزرا اور دیگر افراد سادہ اور باکفایت زندگی گزاریں مگر حکومت اپنے ساتھیوں، اتحادیوں اور مہربانوں کی ناراضی کے ڈر سے شاہ خرچیاں کم نہیں کرپاتی اور ذمے داری مرکزی بینک پر لاد دی جاتی ہے۔



مانیٹری پالیسی وضع کرتے وقت عام طور پر شرح سود اور مقدار زر کو سامنے رکھاجاتا ہے۔ کیونکہ یہ دونوں معاشی عوامل مجموعی طور پر ملک کی معاشی، کاروباری اور تجاری سرگرمیوں پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ اس مرتبہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ماہ ستمبر کے آخری دنوں میں مانیٹری پالیسی کا اعلان کیا جس میں شرح سود کو برقرار رکھنے کا اعلان کیا جو اس وقت 5.75 فی صد ہے اور یہی شرح سود گزشتہ 16 ماہ سے برقرار ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ مرکزی بینک نے ملک میں صنعتی و زرعی بہتری کی توقعات کی بنیاد پر یہ امید ظاہر کی کہ سال 2017-18ء میں معاشی ترقی کی رفتار 6 فی صد تک رہے گی اور اس میں بڑے صنعتی شعبے کی بحالی اور سی پیک سے متعلقہ منصوبوں کا بڑا کردار ہوگا۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ملک کے بیرونی شعبے کی خراب صورتحال اور اس کی وجہ سے آنے والے معاشی مسائل کے سلسلے میں مختلف خدشات کا اظہار کیا گیا۔ مثلاً رواں مالی سال 2017-18ء میں شروع کے دو ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2.6 ارب ڈالر ہوگیا ہے۔ در آمدات میں مسلسل اضافے اور بیرونی براہ راست سرمایہ کاری اور ترسیلات زر میں کمی سے رواں مالی سال کے آخر تک پاکستان کے توازن ادائیگی کی صورتحال انتہائی خطرناک ہوسکتی ہے۔



مالی سال 2016-17ء میں تجارتی خسارہ 32.2 ارب ڈالر کی حد کو چھورہا تھا جب کہ حکومت پاکستان نے 12 ارب ڈالر بیرون قرضوں اور سود کی مدوں میں ادا کیے۔ رواں سال سی پیک سے تعلق رکھنے والے منصوبوں کی تکمیل کے لیے مختلف نوعیت کی مشینری در آمد کرنا ہوگی۔ اسی طرح تیل کی قیمتیں بلندی کی طرف جارہی ہیں اس کے نتیجے میں رواں سال کے اختتام تک پاکستان کی در آمدات کہاں پہنچیں گی جب کہ برآمدات، ترسیلات زر اور براہ راست بیرونی سرمایے میں پاکستان کی طرف زرمبادلہ کا بہاؤ بہت کم نظر آرہاہے جب کہ آئندہ چند ماہ میں بیرونی قرضوں کی مد میں خطیر رقم درکار ہوگی۔
چنانچہ پاکستان کی وزارت تجارت، وزارت خزانہ اور دوسرے معاشی منتظمین کی ذمے داری ہے کہ برآمدات کو بڑھانے کے لیے ایسے ٹھوس اقدامات کیے جائیں جن سے فوری طور پر برآمدات پر نمایاں اضافہ ہو ورنہ تجارتی خسارہ اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پورا کرنا پاکستان کے لیے بہت مشکل ہوجائے گا۔