امریکا کھل کر سامنے آگیا‘ سی پیک کو متنازع قرار دے دیا

328

واشنگٹن/ بیجنگ/ اسلام آباد/ڈھاکا(خبر ایجنسیاں + نمائندہ جسارت) امریکا کھل کر سامنے آیا گیا،ٹرمپ انتظامیہ بھارت کی زبان بولنے لگی، امریکی وزیر دفاع جیم میٹس نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا کہ چین کا منصوبہ ون بیلٹ ون روڈ (جس میں سی پیک بھی شامل ہے) متنازع علاقے سے گزر رہا ہے جبکہ چین نے سی پیک پر امریکی اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ سی پیک کے باعث مسئلہ کشمیر پر اُصولی مؤقف تبدیل نہیں ہو گا اور ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو اقوام متحدہ کی تائید حاصل ہے ۔ دوسری جانب پاکستان نے سی پیک پر امریکی واویلا مسترد کردیا ہے ۔تفصیلات کے مطابق امریکی وزیر دفاع جم میٹس اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ سینیٹ کی آرمڈسروسز کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے اور ارکان کانگریس کو پاک افغان خطے کی موجوہ صورتحال سے آگاہ کیا۔امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے کہا کہ امریکا ون بیلٹ ون روڈ کی مخالفت کرتا ہے کیونکہ دنیا بھر میں کئی سڑکیں اور گزرگاہیں موجود ہیں تاہم کسی بھی قوم کو ون بیلٹ ون روڈ پر اپنی من مانی نہیں کرنی چاہیے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے اس منصوبے کی مخالفت کی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان سے گزرنے والے اس منصوبے کا ایک حصہ متنازع علاقے سے ہوکر گزرے گا۔



.امریکی وزیر دفاع نے مزید کہا کہ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے تو ہم انسداد دہشت گردی کے حوالے سے چین کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں تاہم جہاں چین کی سمت غلط ہے وہاں ہمیں اس کی مخالفت بھی کرنی ہوگی۔دوسری جانب چین نے امریکا کے تمام الزامات کو مسترد کردیا اس حوالے سے چینی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو اقوام متحدہ کی تائید حاصل ہے جبکہ سی پیک کے باعث مسئلہ کشمیر پر اس کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔امریکی وزیر دفاع جم میٹس کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے چینی وزارت خارجہ نے کہا کہ ہم نے بارہا یہ بات کہی ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ کسی تیسرے فریق کے خلاف نہیں اور اس کا علاقائی خودمختاری کے تنازعات سے بھی کوئی تعلق نہیں جبکہ سی پیک کے باعث مسئلہ کشمیر پر چین کا اُصولی مؤقف بھی تبدیل نہیں ہوگا۔ون بیلٹ ون روڈکے ذریعے دنیا پر اجارہ داری قائم کرنے کے امریکی الزام کو مسترد کرتے ہوئے بیجنگ نے کہا کہ یہ بین الاقوامی عوامی منصوبہ ہے، یہ متعلقہ ممالک کے ساتھ چین کے تعاون کا اہم اور جامع ترقیاتی پلیٹ فارم ہے، جبکہ 100 سے زیادہ ممالک اور بین الاقوامی تنظیمیں اس میں شامل ہیں اور بھرپور حمایت کررہی ہیں۔چینی حکومت نے کہا کہ 70 سے زیادہ ممالک اور عالمی تنظیموں نے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے پر چین کے ساتھ تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اسے اپنی اہم قراردادوں میں بھی شامل کیا ہے۔سی پیک منصوبے کے تحت چین اور پاکستان کو سڑکوں، ریلوے، پائپ لائنز اور فائبر آپٹیکل کیبلز کے 3 ہزار کلومیٹر طویل نیٹ ورک کے ذریعے باہم منسلک کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ چین کے صوبے سنکیانگ کو براہ راست گوادر کی بندرگاہ سے منسلک کرے گا جہاں سے چین کو بحیرۂ عرب اور پھر دنیا بھر تک رسائی ملے گی۔



سی پیک سے چین مشرق وسطیٰ سے آنے والی اپنی تیل سپلائی کو پائپ لائنوں کے ذریعے سنکیانگ تک پہنچائے گا جس سے ایندھن کی ترسیل پر اس کے اخراجات میں نمایاں کمی آئے گی ۔واضح رہے کہ بھارت نے علاقائی تنازعات کا بہانہ بنا کر ون بیلٹ ون روڈ میں شرکت سے انکار کردیا ہے۔ادھر چین کے بعد پاکستان نے بھی سی پیک پر امریکی اعتراضات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ خطے کی ترقی کا منصوبہ ہے۔سی پیک سے متعلق امریکی وزیر دفاع جم میٹس کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ سی پیک خطے کی ترقی، رابطے اور عوام کی فلاح کا منصوبہ ہے۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہا ہے اور بھارتی فوج کشمیر میں سنگین جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے لہٰذا عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی بربریت کا نوٹس لے۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کی ضرورت ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادیں کشمیریوں کے لیے حق خود ارادیت کا مطالبہ کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں بنگلا دیش کے سیکرٹری خارجہ شاہد الحق نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بنگلا دیش چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کی حمایت کرتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ خود مختاری کے نام پر ان کا ملک دنیا سے کٹ کر نہیں رہ سکتا کیونکہ تین طرف میں بھارت اور چوتھی طرف سمندر میں گھرے بنگلا دیش کو دنیا سے منسلک کرنے کے لیے زمینی راستوں کی ضرورت ہے چاہے یہ راستے چین کی مدد سے ہی وجود میں آئیں ۔