نازش ہما قاسمی
بھارتی حکمران جماعت بی جے پی کی پالیسیاں ہمیشہ مسلم مخالف رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ہمیشہ اِن سے دور رہا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے دورِ اقتدار میں ہمیشہ مسلمان اقلیت کے خلاف ہی کام کیے ہیں، خواہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت رہی ہو یا دیگر ریاستوں میں۔ گجرات فسادات ہی کو دیکھ لیں، یہ اس ہندو انتہا پسند جماعت کے ماتھے پر کلنک ہے ایسا داغ جو کبھی دھل نہیں پائے گا۔ اس نفرت پر مبنی سلسلے کی حالیہ مثال یوپی کے وزیر اعلیٰ کا ایک فیصلہ ہے، یوگی آدتیہ ناتھ نے مسلم دشمنی میں ایک ایسا فیصلہ کیا ہے جس کی مذمت امت مسلمہ کی جانب سے بھی کی گئی ہے اور امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بھی اس پر تنقید کی ہے۔ یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی نے صرف اس وجہ سے تاج محل کو سرکاری سیاحتی فہرست سے غائب کیا ہے کیونکہ اسے تعمیر کرانے والا ایک مسلمان تھا۔ یوگی اپنے وزیر اعلیٰ بننے سے قبل بھی تاج محل کو محض ایک عمارت تصورکرتے تھے لیکن آج جب اقتدار ان کے ہاتھوں میں ہے تو انہوں نے اپنے تصور کو حقیقی روپ دیتے ہوئے اسے سرکاری سیاحتی فہرست سے ہی خارج کردیا۔ کیا ان کا اس طرح کرنا درست ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ یہ ایک مسلم مخالف فعل ہے اور اس کی ہرجانب سے مذمت ہورہی ہے۔
بھارتی مسلمانوں کے لیے یہ ایک المیہ ہے کہ ان کی تاریخ کو ملک سے مسخ کیا جا رہا ہے۔ برسوں تک ہندوستان میں محبت کے دیپ جلانے والے مغل حکمرانوں کو ظالم کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، انہیں ہندو مخالف تصور کیاجارہا ہے، موجودہ حکومت ہر جگہ جہاں بھی مغل دور حکومت کی نشانی نظر آرہی ہے اسے مٹانے، مسخ کرنے کے درپے ہے۔ ان کی نشانیاں جو ہندوستان کی پہچان ہیں، تہذیب سے وابستہ ہیں، بین الاقوامی برادری میں قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں، اسے یہ انتہا پسند حکومت مٹاتی جارہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے اقدامات سے حکمران جماعت ملک کی تاریخ بدل سکتی ہے؟ کیا مغل حکمراں کے دورِ انصاف کو بھلایا جاسکتا ہے؟ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات مبینہ طور پر بٹھائی جارہی ہے کہ مغل لٹیرے تھے، انہوں نے مندروں کو منہدم کیا اور اس طرح کے دیگر غیر انسانی اعمال و افعال روا رکھے، جس سے ہندوئوں کا جینا دوبھر ہوگیا تھا۔ لیکن یہ مسلمانوں سے نفرت کے سلسلے کے تحت ہی محض ایک الزام ہے۔ جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ نفرت کے سوداگروں نے تو بابری مسجد کو بھی ایک کہانیوں کی بنیاد پر شہید کردیا تھا، اب حکومت تاج محل کو شیو مندر ثابت کرنے کے درپے ہے۔ اسے بھی مٹانے کی خواہش رکھتی ہے۔ خیر اسے منہدم کرنا تودشوار ہے کیونکہ اس کا شمار دنیا کے عجائب میں ہوتا ہے اور اس سے بھارتی معیشت کو سالانہ اربوں روپے حاصل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اسے مسمار نہ کیا جائے لیکن اس کی شناخت کو کسی حد تک نقصان ضرور پہنچایا جا رہا ہے۔ اس کی دیکھ بھال نہیں کی جا رہی جس کی وجہ سے اس کی خوبصورتی ماند پڑتی جارہی ہے۔ حکومت اس پر کچھ خرچ نہیں کررہی ہے لیکن اس کی آمدنی سے ضرور اپنی جیب بھر رہی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موجودہ حکومت کا یہی ایجنڈا ہے کہ جتنی بھی مسلم دورِ حکومت کی یادگاریں ہیں اسے ختم کردیا جائے کیونکہ یہ مسلم تہذیب سے وابستہ ہیں؟ مجھے اس موقع پر اکبرالدین اویسی کا قول یاد آتا ہے ایک بار دوران تقریر انہوں نے کہا تھا کہ مسلمانوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ یہاں سے چلے جائیں۔ سب سے پہلی بات تو ہم یہاں سے جانے والے نہیں، کیوں کہ یہ ملک ہمارا تھا، ہمارا ہے اور ہمارا رہے گا لیکن بالفرض اگر جائیں گے بھی تو لال قلعہ، تاج محل، قطب مینار، فتح پوری مسجد و جامع مسجد، ہمایوں کا مقبرہ سبھی لیتے جائیں گے۔
مسلم دشمنی میں اندھے نفرت کے سوداگر محبت کی علامت کو سیاحتی مراکز کی فہرست سے دور کرکے شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے کوئی تیر مار دیا ہے یا بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ نفرت سے دلوں پر حکومت نہیں کی جاسکتی۔ مغلوں نے ہمیشہ محبت سے دلوں کو فتح کیا ہے یہی وجہ ہے کہ آج صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی ان کی تہذیبیں، ان کی روایتیں زندہ ہیں اور دنیا تسلیم کررہی ہے۔ اسے عجائبوں میں شمار کیا جارہا ہے۔ آپ کی اس نفرت کی وجہ سے تاج محل پر کوئی آنچ نہیں آئے گی تاہم وقتی طور پر آپ کو سیاسی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ ان نفرت کے سوداگروں کو اب تک یہ بات ہضم نہیں ہورہی ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کا شاندار ماضی رہا ہے انہوں نے اپنی تہذیب اپنے اخلاق کے بل بوتے پر یہاں سیکڑوں برس تک حکومت کی۔ اگر وہ فرقہ پرست ہوتے تو اتنی طویل مدت میں ایک بھی غیر مسلم ہندوستان میں نہیں ہوتا۔ اگر وہ تشدد پسند ہوتے تو ایک بھی مندر یہاں نظر نہیں آتا۔ تاریخ شاہد ہے انہوں نے مندروں کے لیے مراعات دیں، زمینیں الاٹ کیں لیکن آج ان عادل حکمرانوں کے عدل کا بدلہ برسوں گزر جانے کے بعد یہ دیا جارہا ہے کہ اسلامی طرزِ تعمیر کے شاہکار نمونے کو محض نفرت و تعصب کی بنیاد پر سیاحتی مراکز کی فہرست سے خارج کردیاگیا۔