عراق کے بعد شام کو تقسیم کرنے کی سازش

290

غلام نبی مدنی

عراقی کردستان میں 25ستمبر کوہونے والے ریفرنڈم میں90 فیصد سے زائد افراد نے اپنے علاقے کی آزادی کے حق میں ووٹ ڈالا۔ اس ریفرنڈم کو رکوانے کے لیے عراقی، ترک اور ایرانی حکومت سمیت بظاہر امریکا اور دیگر یورپی ممالک کی طرف سے خوب زورلگایاگیا، لیکن بہرحال یہ ریفرنڈم ہوا اور کامیابی سے ہمکنارہوا۔ ریفرنڈم کے بعد ترکی، ایران اور عراق نے کردستان انتظامیہ کو معاشی اور دفاعی لحاظ سے جہاں خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیں، وہیں عملاً یہ تینوں ممالک کردستان کے خلاف متحد بھی ہوچکے ہیں۔ عراق اور ایران نے کردستان کے لیے جانے والی پروازوں کو بند کردیا ہے۔ اس کے علاوہ ان تینوں ممالک نے کردستان کی سرحدوں کے قریب فوجیں بھی تعینا ت کردی ہیں۔ 4 اکتوبر کو رجب طیب اردوان ایران کا دورہ بھی کردستان کے حوالے سے کرچکے ہیں۔ اس دورے میں انہوں نے ایرانی صدر حسن روحانی اور ایرانی مرشد علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے دوران دونوں ملکوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ عراق اور شام کی جغرافیائی حدود کو تبدیل نہیں کرنے دیں گے۔
دوسری طرف ان تمام تر دھمکیوں کے باوجود کردستان کے صدر مسعود بارزانی پیچھے ہٹنے کے لیے تیارنہیں ہیں۔ بلکہ وہ مطمئن ہیں کہ بہت جلد شامی کرد اور عراق کے سب سے زیادہ مالدار صوبے کرکوک میں بسنے والے کرد بھی کردستان کے ساتھ شامل ہو جائیں گے۔ یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ اب شام میں جنگ بندی کے بعد شام کو بھی مزید تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ جس میں شام کو مسلکی بنیادوں پرتقسیم کیا جائے گا، تاکہ اسرائیل کے لیے مستقبل میں کوئی خطرہ نہ رہے۔



دیکھا جائے تو کردستان کی آزادی دراصل شام کی تقسیم کی طرف پیش قدمی ہی ہے۔ تاہم فی الحال کردستان کے بعد عراق کو مزید تقسیم کرنے کا منصوبہ چل رہا ہے۔ چنانچہ کردستان کے بعد اب عراق میں بسنے والے باقی طبقات نے بھی کردستان کی طرح اپنے ماتحت علاقوں میں علاحدہ ریاست کا مطالبہ کردیا ہے۔ عراقی سنیوں کے مفتی اعظم نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ عراق کی موجودہ شیعہ حکومت سنیوں پر مظالم ڈھارہی ہے اور یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے اس لیے اب سنی ان مظالم کو برداشت نہیں کریں گے۔ سنیوں کو مکمل حقوق تب ملیں جب ان کے لیے علاحدہ ریاست ہو۔ عراقی حکومت نے سنیوں کو منانے کے لیے مذاکرات کا عندیہ دیا ہے مگر درحقیقت یہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت ہورہاہے۔ جس میں عراق کو 3 حصوں میں تقسیم کرنا تھا۔ نمبر ایک عراقی شیعہ اسٹیٹ، جس کا آغاز امریکا کی عراق میں مداخلت اور صدام حسین کی شہادت کے بعد ہوگیا تھا اور اس وقت موجودہ حکومت کے ہوتے ہوئے تقریباً یہ اسٹیٹ قائم ہوچکی ہے۔ نمبر دو سنی عرب عراقی اسٹیٹ جس کا آغاز مفتی اعظم کے حالیہ بیان کے بعد شروع ہوجائے گا۔ نمبر تین کردستان عراق، جس کا باقاعدہ افتتاح ریفرنڈم کی صورت ہوچکا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ترکی، عراق اور ایران کردستان کی آزادی رکوا پائیں گے؟ ان 3 ممالک کے ذاتی مفادات اور کردستان میں روس کی سرمایہ کاری کو دیکھ کر لگتا یہ ہے کہ کردستان آزاد ہوجائے گا۔ بس کردستان کو ان تینوں ممالک کا خیال رکھنا ہوگا۔ کیوں کہ ترکی کی تقریباً 700 سے زائد بڑی بڑی کمپنیاں کردستان میں موجود ہیں۔ جب کہ روس پچھلے سال 4 ارب سے زائد کی سرمایہ کاری کردستان میں کرچکا ہے۔ کرکو ک شہر میں تیل اور گیس کے بڑے بڑے ذخائر کی تلاش میں روسی کمپنی بھاری سرمایہ کاری کا معاہد ہ کرچکی ہے۔ دوسری طرف یہ حقیقت بھی سب کے سامنے ہے کہ ترکی اور ایران کے روس کے ساتھ گہرے مراسم ہیں۔ یہ دونوں ممالک شام میں ایک دوسرے کے حلیف ہیں۔ ایسے میں یہ دونوں ملک کردستان کے خلاف کسی بھی قسم کا ایسا قدم نہیں اٹھاسکتے جس سے رو س کو نقصان ہو۔ یہی روس ہے جس کی پشت پناہی کی وجہ سے کردستان کے رہنما عراق، ترکی اور ایران سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کررہے ہیں۔



اگر عراق کی تقسیم کے منصوبے کا گہرائی میں جاکر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ دراصل عراقی حکومت کردستان کی آزادی سے بہت خوش ہے۔کیوں کہ کرد سنی عراقی شیعہ حکومت کے لیے گلے کی ہڈی کے مانند تھے، جو ہمیشہ حکومت کے مفادات میں رکاوٹ بنتے۔ یہی رویہ موجودہ عراقی حکومت کا باقی ماندہ عرب سنیوں کے بارے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب جب عرب سنیوں کے مفتی اعظم نے عراقی حکومت سے مطالبہ کردیا ہے کہ سنیوں کے لیے علیحدہ ریاست ہو تو اس پر عراقی حکومت کا اتنا سخت رد عمل تاحال نہیں آیا اور نہ آئے گا۔ دنیا کو دکھانے کے لیے عراقی حکومت ضرور کردستان کی آزادی سے نالاں نظر آتی ہے، مگراندرون خانہ یہ سب کچھ ان کی آشیرباد سے ہورہا ہے۔ رہا معاملہ ترکی اور ایران کا تو ترکی کردستان سے صرف اس لیے خوفزدہ ہے کہ کل کہیں ترکی میں بسنے والے 2 کروڑ سے زائد کرد ترکی سے علاحدگی کا مطالبہ نہ کر بیٹھیں۔ جب کہ ایران کو بھی بظاہر یہی خوف لاحق ہے، اس کے علاوہ ایران چوں کہ شام اور لبنان تک علاقے میں برسر پیکار ہے، اس لیے اس کی خواہش یہ ہے کہ کردستان عراق کی موجود ایران نواز حکومت کے ساتھ رہے تاکہ ایران کولبنان اورشام تک آنے جانے میں کوئی مسئلہ نہ رہے۔ لیکن کرد حکمرانوں کی یقین دہانی کے بعد ایران ضرور کردستان کی آزادی پر قائل ہوجائے گا۔
ایک اور سوال یہ ہے کہ عراق کی اس بندر بانٹ سے فائدہ کس کو ہوگا؟ اس کا جواب جاننے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد عالم اسلام بالخصوص مشرق وسطیٰ ٰکی موجودہ تقسیم سے فائدہ کس کو ہوا اور آج تک کون لوگ مشرق وسطیٰ کی مزید تقسیم کے لیے مشرق وسطیٰ میں برسرپیکار ہیں؟ جو لوگ مشرق وسطیٰ کی تقسیم میں پہلے شامل تھے وہی لوگ آج بھی شامل ہیں اور مشرق وسطیٰ کی حالیہ تقسیم سے بھی انہی کو فائد ہ ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں اس تقسیم کا مقصد اسرائیل کو فائدہ پہنچا کر ‘گریٹر اسرائیل کی راہ ہموار کرنا ہے۔



ایک اور زاویے سے اس تقسیم کو دیکھا جائے تو دو طاقتیں مشرق وسطیٰ کی حالیہ تقسیم میں سرگرم ہیں۔ ایران اور اسرائیل۔ اسرائیل کے ساتھ پورا یورپ اور امریکا کھڑا ہے، جب کہ ایران کے ساتھ روس کھڑا ہے۔ چنانچہ اسرائیل اور ایران کے درمیان مخاصمت کی اصل وجہ یہی ہے۔ ایران چاہتا ہے کہ مشرق وسطیٰ پر اس کی گرفت مضبوط ہوجائے، جب کہ اسرائیل اس کو اپنے مقصد ‘گریٹر اسرائیل کی راہ میں رکاوٹ سمجھتاہے۔ جب کہ اس مخاصمت کا نقصان اسلام اور مسلمانوں کو ہورہا ہے۔ جس کا مشاہدہ ہم شام اور عراق کی بدترین خانہ جنگی کی صورت دیکھ چکے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کی اس نئی تقسیم کو روکنے اور مسلمانوں کو تباہ حالی سے بچانے کا حل یہی ہے کہ امت مسلمہ متحد ہوجائے۔ مسلکی بنیادوں پر امت کو تقسیم کرنے والے ہوں یا مفادات کے نام پر مسلمانوں کا خون بہانے والے اسلامی ممالک کے حکمران، اس سب کے خلاف مسلمان متحرک ہوجائیں اور انہیں یہ باور کروائیں کہ مفادات سے پہلے مسلمانوں کا اتحاد اور ان کی جان مال عزیز ہے۔ پاکستان، ترکی اور سعودی عرب جیسے ملکوں کو یہاں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان تینوں کو امت مسلمہ کے اجتماعی مفاد کی خاطر ذاتی مفادات کو ترک کردیناچاہیے تاکہ اسلام اور مسلمان مزید تباہی اور بربادی سے بچ سکیں، ورنہ کوئی بعید نہیں کہ پڑوس میں لگی آگ کل ان کے گھروں کو بھی جلادے! (بشکریہ: دلیل)