طلبہ ملک کا روشن مستقبل ہیں‘ اساتذہ تعلیمی اداروں میں اتحاد اور امن کی
فضا پیدا کر سکتے ہیں‘
اسلامی جمعیت طالبات کراچی کی ناظمہ ایمن ناصر سے بات چیت
یہ سوال بڑی شدت کے ساتھ میڈیا میں اس وقت اٹھایا گیا جب دہشت گردی کے کچھ واقعات میں ملوث ملزمان کے حوالے سے میڈیا نے اطلاع دی کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور شہر کے بڑے اور اہم ترین تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم رہے۔ اس پر وزیر اعلیٰ سندھ کا حیرانی کے ساتھ کہنا کہ ’ کہیں ہماری یونی ورسٹیز دہشت گردوں کی افزائش گاہ تو نہیں بن گئیں‘پھر طلبہ کا ریکارڈ حساس اداروں کو دینے کے ارادے کا بھی اظہار ہوا۔ ساتھ ہی یہ اطلاع بھی آئی کہ تعلیمی اداروں کے طلبہ سے مقامی پولیس اسٹیشن کا جاری کردہ کریکٹر سرٹیفکیٹ بھی لینے کی تجویز زیر غور ہے ۔
یہ خبریں انتہائی عجیب و غریب اور حیران کن تھیں ۔ کیونکہ یہ اقدامات بذات خود طلبہ کو انتہائی اضطراب میں مبتلا کرنے والے ہیں۔ ریاست کے سخت ترین اداروں سے طلبہ کے رابطوں کا مطلب ان میں بے چینی اور شدت پسندی بڑھانا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی حیرانی پر بھی بس حیران ہی ہوا جا سکتا ہے۔ کیا وہ خود اپنی جماعت کے عزیر بلوچ یا رحمٰن ڈکیت اور ایسے کتنے ہی شدت پسند دہشت گردوں سے رابطوں کی وضاحت کر سکتے ہیں؟ اور اس تناظر میں کیا ان سے یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ کہیں ان کی جماعت دہشت گردوں کی پناہ گاہ اور نر سری تو نہیں بنتی جا رہی؟
ایک طرف طلبہ یونینز پر پابندی ہے اور دوسری طرف یہ کہنا کہ نصاب کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔ ساتھ ہی سینیٹ میں قرار داد منظور ہو کہ جمہوریت اور جمہوری اقدار کو نصاب تعلیم میں شامل کیا جائے ۔ یہ متضاد بیان طلبہ کے لیے انتشار کا باعث نہیں بنے گا؟
طلبہ کا کردار کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے انتہائی اہم ہوتا ہے ۔ قیام پاکستان میں بھی طلبہ نے انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔ بابائے قوم قائد اعظم طلبہ کو پاکستان کا سفیر کہا کرتے تھے۔ طلبہ پاکستان کا مستقبل ہیں جو اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ملک کا نام روشن کرتے ہیں لیکن یہ سوال اہم ہے کہ آج کا طالب علم ان حالات میں کس طرح اور کیا سوچتا ہے؟
یہ جاننے کے لیے ہم نے اسلامی جمعیت طالبات کراچی کی ناظمہ سے کچھ سوالات کیے جس کی تفصیل قارئین کی نذر ہے:
جسارت: کہا جا رہا ہے کہ شدت پسندی تعلیمی اداروں میں پروان چڑھ رہی ہے، کیا آپ اس سے اتفاق کرتی ہیں؟
ایمن ناصر: تعلیمی اداروں میں اگر ایسی کیفیت کی کوئی جھلک نظر آتی ہے تو وہ پورے معاشرے کا عکس ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ریاست نے اپنی بنیادی ذمے داریاں پوری نہیں کیں ۔ آج اگر کہا جاتا ہے کہ نصاب میں جمہوریت اور جمہوری اقدار کو شامل کیا جانا چاہیے تو سب سے زیادہ ضروری ہو جاتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کی اجازت دی جائے۔ ساتھ ہی نئی نسل خاص طور سے نوجوان نسل کو معاشرے کی اعلیٰ اقدار اور روایات سے روشناس کرنے کے لیے اساتذہ کو تربیت دی جائے تاکہ تعلیمی اداروں میں خوف اور تعصب کی جگہ محبت پیار یگانگی اور اتحاد کی فضا پیدا ہو ۔ نظریاتی طور پر اسلام اور پاکستان سے وابستگی مضبوط کی جائے۔ نصاب سے اسلام اور پاکستان کے حوالے سے مضامین نکالنے کے بجائے مزید بہتر انداز میں سیکھے گئے مضامین شامل کرناچاہیے تاکہ طالب علم کی بہتر ذہنی تربیت ہو سکے۔
جسارت: کیا اسٹوڈنٹ یونین پر پابندی نے تعلیمی اداروںمیں دہشت گردی کا راستہ ہموار کیا ہے؟
ایمن ناصر:
جسارت: کیا دہشت گردی کا علاج تعلیمی اداروں کے ڈیٹا کلیکشن کے ذریعے ہو سکتا ہے؟
ایمن ناصر: جی نہیں، ڈیٹا کلیکشن اس مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ بلکہ یہ طلبہ کو زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار کرنے کے علاوہ غیر ضروری پریشانی اور مشکلات کا باعث بھی بنے گا۔ بے چینی اور اضطراب کو جنم دے گا ۔ تعلیمی اداروں کی اپنی احتیاطی تدابیر ہونی چاہییں۔ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ خود اپنے طالب علموں کے ساتھ رابطے کریں ۔ ان کے مسائل کو سمجھیں اور حل کرنے میں ان کی مدد کریں ۔
جسارت: کیا نوجوان نسل مایوسی کا شکار ہے؟
ایمن ناصر: ہم یہ نہیں کہہ س
جسارت: کیا بے رو زگاری اور غربت اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانون کو کسی اور طرف متوجہ کر دیتی ہے؟
ایمن ناصر: جی ہاں بیروز گاری ، غربت مہنگائی یہ سب وہ عوامل ہیں جو لوگوں کو ہر قسم کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی ذرائع آمدن کے استعمال پر آمادہ کر دیتے ہیں ہمارے معاشرے کی جڑوں میں اپنا زہر پھیلانے والی کرپشن اس کی بہت عام مثال ہے۔ ریاست مخالف قوتوں کے ہاتھوں استعمال ہونا بھی اس کی اہم مگر محدود مثال ہے۔
جسارت: طالب علموںمیں صبر و برداشت بڑھانے کے لیے کیا کیا جانا چاہیے؟
ایمن ناصر: اگر ہم ظلم اور معاشرتی برائیوں کے خلاف صبر و برداشت بڑھانے کی بات کر رہے ہیں تو یہ سوچ غلط ہے لیکن اگر ہم افراد کی باہمی آہنگی بڑھانا چاہتے ہیں تو یہ ہماری ایک اہم ضرورت ہے اس کے لیے اگر ہم اسکول کالج اور یونی ورسٹی ہر سطح پر رٹی رٹائی روایتی تعلیم کے بجائے کھلے اور با معنی مذاکرے اور مکالمے کے ذریعے طلبہ کو کھلے ذہن سے سوچنا تحقیق کرنا اور غیر جانب داری سے چیزوں کی تہہ میں پہنچنا سکھائیں تو ہمارا مقصد حاصل ہو سکتا ہے یوں ان ذاتی تعصبات کی جڑ ختم ہو گی ۔ جو لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کرتے ہیں اس کے لیے سب سے پہلے اساتذہ کی تعلیم و تربیت ہونی چاہیے پھر یہ کہ ہمارا معاشرہ اور ذرائع ابلاغ بھی اس کلچر کو فروغ دیں ۔ ہمارے معاشرے میں صوبائی لسانی گروہی اور مذہبی روا داری کے اچھے نمونے بہت عام ہیں ہم کو ان کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے ۔