آج کل دنیا میں انتخابات کے حوالے سے جو رسا کشی ہوتی ہے ۔ اس میں ہار جیت کا ایک ایسا تصور ہے جس کی خاطر ، ہر جائز اور ناجائز طریقے ، وسائل و ذرائع کا بھر پور استعمال کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ ووٹ دینے یا نہ دینے کا تعلق ہماری اس دنیا کی زندگی کے نفع و نقصان سے نہیں ہے ۔ بلکہ اس کے پیچھے فرمانبرداری اور نا فرمانی کے ساتھ گناہ ثواب بھی ہے ۔ اس کے اثرات صرف اس دنیا تک محدود نہیں یہ ہمارے گلے کا طوق اور جہنم کے عذاب کا سبب بھی بن سکتے ہیں ۔ کیونکہ امید وار اور ووٹر دونوں اپنی ذمہ داری کے لحاظ سے غیر مسئول نہیں ہیں ۔
امید وار کی جیت:
جو امید وار کسی پارلیمنٹ کی ممبری کے لیے پیش ہوتا ہ ۔ وہ گویا پوری قوم کے سامنے دو باتوں کا دعویٰ کرتا ہے
(1) یہ کہ وہ اس کام کی قابلیت رکھتا ہے ۔
(2) دیانت اور امانت داری سے اس کام کو انجام دے گا ۔
اب فکر آخرت رکھنے والا شخص تو پہلے خود اس بات کی نزاکت کو جانے گا کہ اس ممبری سے پہلے تو اس کی ذمہ داری صرف اپنی ذات اور کنبہ کی حد تک تھی ۔ مگر اب پارلیمنٹ کی ممبری کے بعد وہ تمام علاقہ اور افراد اس کی ذمہ داری ہوں گے جو اس کے حلقے کے دائرے میں ہیں ۔
اس حساسیت کا فہم رکھنے والا خود تو اپنے آپ کو اس امتحان میں نہیں ڈال سکتا۔
الا یہ کہ کوئی جماعت اس کونامزد کر دے ۔ اور وہ خلق خدا کی خدمت کو عبادت جانتے ہوئے قبول کر لے ۔
ووٹ اور ووٹر کی حیثیت:
قرآن کی رو سے ووٹ کی حیثیت تین طرح کی ہے ۔
شہادت – شفاعت، سفارش. وکالت
شہادت:
ان معنوں میں کہ جس کو آپ ووٹ دے رہے ہیں تو گایا اپنی صوابدید میں آپ اس کو کریکٹر سرٹیفکیٹ دے رہے ہیں ۔
کہ یہ شخص اس کام کا اہل ہے ۔ اور دیانت دار اور امانت دار بھی ہے ۔ ووٹ دینے سے قبل جائزہ لیں کہ واقعی وہ شخص یہ صفات رکھتا ہے ۔ اگر نہیں تو جسے آپ نے ووٹ دیا وہ جھوٹا سرٹیفکیٹ دیا یا جھوٹی شہادت دی ۔ جھوٹی شہادت دینے والا ازروئے قرآن گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے ۔ اور گناہ کبیرہ وہ عمل ہے جس کا بھگتان دنیا و آخرت دونوںمیں بھگتنا ہے ۔
(حدیث) ایک حدیث میں شہادت کازبہ کو شرک کے ساتھ کبائر میں شمار کیا ہے ( مشکوٰۃ) ایک اور حدیث میں جھوٹی شہادت کو اکبر و کبائر کہا گیا ہے ۔ لہٰذا ووٹ دینے والے کو اپنی آخرت اور انجام کی فکر کے ساتھ ووٹ دینا ہے کہ یہ صرف دنیاوی مشق نہیں بلکہ اس کا تعلق ابد الاباد تک ہے ۔
شفاعت:
ووٹ کی حیثیت ازروئے قرآن شفاعت کی بھی ہے ۔ کیونکہ ووٹر کسی امید وار کے بر حق ہونے کی سفارش کرتا ہے ۔
قرآن میں ہے ۔ جو شخص اچھی سفارش کرتا ہے اس میں اس کو حصہ ملتا ہے اور جو بری سفارش کرتا ہے اس کی برائی میں اس کو حصہ ملے گا ۔
اچھی سفارش یہ ہے کہ قابل دیانت دار امید وار کی سفارش کرے جو خلق خدا کے حقوق ادا کرنے کی فکر بھی رکھتا اور صلاحیت بھی ۔
وکالت:
ووٹ کی تیسری حیثیت وکالت کی ہے گویا امید وار وکیل ہوتا ہے جسے ووٹر منتخب کرتا ہے ۔ اگر یہ وکالت صحیح شخص کے لیے کی جائے تو خیر ہے ۔ اور اگر وکالت کسی بد کردار یا نا اہل کے لیے ہو تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ ان کے سر پر ہو گا جنہوں نے ایسے وکیل کو نمایندگی کے لیے منتخب کیا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ؐ نے کسی مسلمان کی جان ومال آبرو کو کعبۃ اللہ سے زیادہ مقدس قرار دیا ہے ۔
انتخابات کوئی دنیاوی معاملہ نہیں کہ اس میں ووٹ ذاتی تعلق تعصب یا لالچ کی نظر کر دیا جائے ۔ قرآن و سنت کے تمام احکام اس پر بھی جاری ہوتے ہیں ۔ حلال و حرام ، جائز و ناجائز کے احکامات اطلاق یہاں بھی ہے ۔ آخرت میں ایک ایک شخص کو اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر دوسرے اعمال کے ساتھ اس عمل کا بھی جواب دینا ہے اس نے اپنی ’’شہادت‘‘ شفاعت اور وکالت کا استعمال کس حد تک دیانت داری اور خدا خوفی کے ساتھ کیا ہے؟
حمیرا خالد