سرکاری اسکولوں کی تباہ حالی

211

سرکاری اسکولوں کی تباہ حالی
شازیہ کامران۔ گلشن اقبال کراچی

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو
بالکل یہی حال کراچی کے سرکاری اسکولوں کا ہے جہاں پر صرف ماسیوں اور مزدوروں کے بچے صرف کم فیس کی وجہ سے پڑھتے ہیں ورنہ ان اسکولوں میں کوئی پڑھالکھا شخص جو کم آمدنی والا ہو وہ بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کا فیصلہ نہیں کرتا۔اخبار میں عدالت عالیہ سندھ کے ٹونس جو چند بڑے بڑے اسکولوں کی فیسوں میں ناجائز اضافے کی بناء پر دیے گئے اس نے مجھے چند سطور لکھنے پر مجبور کیا۔پچھلے کئی سال سے سندھ پر پیپلزپارٹی کی حکومت ہے جس نے بلاشبہ کراچی کو آگے لے جانے کے بجائے کئی دہائیاں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ جب قائم علی شاہ کو ہٹاکر مراد علی شاہ کو وزیراعلیٰ بنایا گیا تو یہاں کے عوام میں امید جاگی کہ شاید اب کراچی کی ترقی پر اور خاص طور پر نوجوان قیادت آنے پر تعلیم کے شعبے کے طرف توجہ دی جائے گی ۔وزیراعلیٰ نے شروع میں تو ایکشن فلموں کی طرح علاقوں کے طوفانی دورے کیے۔ کبھی صبح صبح بزنس روڈ پر کسی درمیانے سے ہوٹل پر اپنے مصاحبوں کے ہمراہ ناشتے کے لیے پہنچ جاتے۔کبھی کسی ڈھابے پر شام کو اچانک چائے پینے پہنچ جاتے۔ بلکہ لوگوں نے تو ان کا مقابلہ پنجاب کے خادم اعلیٰ سے کرنا شروع کردیا۔ لیکن ان کا یہ ملمع چند دنوں میں اتر گیا۔ بقول شاعر
سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
لگتا ہے کہ وزیراعلیٰ صاحب بھی اپنے پیش روؤں کے طریقوں پر چلنا شروع ہوگئے ہیں۔ بڑے شہروں میں دو نظام تعلیم رائج ہیں۔ ایک کا مقصد امیر شرفاء کے بچوں کو تعلیم دے کر ذہین نوجوان تیار کرکے باہر کے ممالک میں بھیج دینا اور وہ لوگ ایسا نصاب تعلیم پڑھ کر جاتے ہیں جو دنیاوی لحاظ سے تو ان کو ترقی کی منازل طے کرواتا ہے لیکن اخلاقی اور روحانی لحاظ سے انہیں پستیوں میں گرادیتا ہے۔ دوسرا نظام تعلیم جو پڑھا لکھا کر بھی معاشرے میں بے روزگاری کو پھیلارہا ہے۔ امیروں کے بچے جو باہر جانے سے رہ جاتے ہیں۔ باقی اداروں میں انہیں تعلیم دی جاتی ہے۔ غریبوں کے بچے اگر میرٹ پر آکر تعلیم حاصل کرتے بھی ہیں۔ لیکن پڑھ لکھ کر وہ نوکریاں نہیں خرید سکتے ۔
میں خاص کر سندھ کی بات کررہی ہوں۔ جہاں ہر سال کے گیارہ مہینے نوکریوں پر پابندی لگی رہتی ہے اور چند دن کھول کر من پسند لوگوں کو(پیسے لے کر)نوکری دے دی جاتی ہے۔ آخر اس کا حل کیا ہے؟کیا تعلیم کا شعبہ حکومت کے اختیار اور حدود سے باہر ہے؟کیا حکومت کے پاس ایسے افراد نہیں ہیں جو تعلیمی نصاب کو چیک کریں؟کیا وہ نہیں جانتے کہ جس عوام کے ٹیکسوں سے وہ تنخواہ لیتے ہیں اور ووٹوں سے وہ اسمبلی میں پہنچ کر سہولتیں حاصل کرتے ہیں۔ اس عوام کے بچوں کے روزگار اور حقوق کے لیے انہیں آواز اٹھانا ہے؟کیا حکومت کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ بڑی بڑی ایر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں بیٹھ کر عام لوگوں کو حقیر سمجھ کر صرف حکم چلایا جائے اور اپنے متکبر نفس کی اطاعت کی جائے۔
خدارا!اے صاحب اقتدارہوش کے ناخن لو۔اپنی ذمے داریوں کو محسوس کرو۔تعلیم کو ناجائز منافع خوروی کا دھندہ نہیں بناؤ۔سرکاری اداروں اور اسکولوں کی حالت بہتر بناؤ کیونکہ تم نے اس ملک سے وفاداری کا عہد کیا ہے۔ ان کا نصاب تعلیم ایسا بناؤ کہ تم بھی دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوسکوکہ اس کے پڑھنے سے صرف روبوٹ نہیں بلکہ اشرف المخلوقات تیار ہوں۔
کسی نے کیا خوب لکھا تھا کہ میری ذمے داری ہے کہ صرف اپنے بچے کی نہیں بلکہ اپنے ہمسائے کے بچے کی بھی تربیت کروں کیونکہ گھر سے نکل کر میرے بچے کو انہی کے ساتھ کھیلنا ہے۔