حکومت مالی امداد سے بھی گریزاں ۔۔۔ کیوں؟

142

بنگلا دیش کے مہاجر کیمپوں میں موجود لاکھوں مظلوم برمی مہاجرین اسلامی برادری بشمول پاکستان کی طرف سے مالی امداد کے منتظر ہیں۔ بنگلا دیشی عوام اور پاکستان کی طرف سے خدمت خلق کی تنظیموں کے جمع کیے گئے عطیات کی صورت میں مالی امداد ان بے آسرا بچوں، بوڑھوں اور نوجوان مردوں عورتوں تک پہنچ پائی ہے جو انتہائی خستہ حالت میں جان بچا کر بنگلا دیش تک پہنچے ہیں۔ لیکن حکومت پاکستان کی طرف سے ان مظلوم برمی مہاجرین کے لیے کسی قسم کی مالی امداد کا اعلان نہیں کیاگیا ہے۔ حکومت برما کے ظالمانہ رویے اور برمی آرمی کی درندگی کے خلاف تو حکومت پاکستان سیاسی مصلحتوں کی آڑ لے کر چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہے لیکن ان مظلوم مسلمانوں کی مالی امداد سے بھی گریز کی روش اختیار کرنے میں آخر کون سی مصلحت ہے؟ بنگلا دیش کے غریب عوام نامساعد حالات اور ناسازگار موسم کے باوجود برمی مہاجرین کی امداد کررہے ہیں یہاں تک کہ اپنے گھر کا سامان بطور امداد پیش کررہے ہیں لیکن پاکستانی حکومت کے وزراء ارباب اقتدار و اختیار مسلسل بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان مظلوم برمی مہاجرین کی مدد سے گریزاں ہیں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟
پاکستان میں اربوں، کھربوں پتی لوگ موجود ہیں اور حکومتی خزانہ بھی اس قدر خالی تو نہیں ہوگیا ہے کہ مظلوم مسلمانوں کی کوئی امداد حکومتی خزانے سے نہ کی جاسکے۔ آخر ان مسلمانوں سے لا تعلقی کا یہ حکومتی رویہ کس خوف کی وجہ سے ہے؟کیا پاکستانی حکمران پست ہمت اور غیرت و حمیت سے عاری ہوچکے ہیں کہ مظلوم روہنگیائی مسلمانوں کی مالی امداد کرنے سے انہیں حکومت برما کی ناراضی کا اندیشہ ہے؟میرا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ فوری طور پر مظلوم روہنگیائی مسلمانوں کی مالی امداد کا اعلان کرتے ہوئے حکومت کے خزانے کھول دے اور حکمران پارٹی کے سابقہ و موجودہ تمام عہدیداران بھی اپنی کھربوں اربوں پر مشتمل دولت کو غیر ملکی بینکوں سے نکال کر مالی امداد پر خرچ کریں۔
بینا حسین خالدی، صادق آباد