گزشتہ سے پیوستہ
یہ خاتون تھیں اللہ کے رسول ﷺ کے سب سے محبوب ساتھی حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی صاحب زادی حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا ۔
صحابیات میں حضرت اسماء ؓ کا مرتبہ بہت بلند ہے ۔ آپ ؓ کے شوہر حضرت زبیر بن العوام ؓ مشہور صحابی ؓ ہیں ۔ وہ ان دس صحابۂ کرام ؓ میں شامل ہیں جن کو اللہ کے رسول ﷺ نے جنت کی خوش خبری سنا دی تھی ۔ ان دس صحابہ ؓ کو ’’عشرہ مبشرہ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ حضرت اسماء کے صاحب زادے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ بھی صحابی تھے ۔حضرت اسماء ؓ کی چھوٹی بہن حضرت عائشہ ؓ تو ام المومنین ہیں ۔
حضرت اسماء ابی بکر ؓ ہجرت نبوی سے ستائیس سال پہلے مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں ۔ ایمان لانے والوں میں ان کا نمبر اٹھارہواں ہے ۔ اس زمانے میں مسلمان چھپ کر عبادت کرتے تھے ۔ پھر جب حضور ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کھلے عام دعوتِ اسلام دینا شروع کی تو مخالفتوں کا طوفان آ گیا ۔ حضرت اسماء ؓ بتاتی ہیں کہ ایک بار خانہ کعبہ میں آنحضرت ﷺ پر مشرکین نے حملہ کر دیا ۔ کسی نے آ کر ہمیں خبر کی ۔ میرے والد ( حضرت ابو بکرؓ) فوراً خانہ کعبہ کی طرف دوڑے ۔ وہاں انہوں نے کفار کو روکنے کی کوشش کی ۔ کفار نے ان کو اتنا مارا پیٹا کہ وہ بے ہوش ہو گئے ۔ ان کو اٹھا کر گھر لایا گیا ۔ وہ اتنے زخمی تھے کہ ہم ان کے سر کو ہاتھ لگاتے تھے تو ان کے بال جھڑ جاتے تھے ۔
تیرہ برس تک مکہ مکرمہ میں دعوت دین دینے کے بعد حضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کا حکم ہوا ۔ حضور ﷺ نے بہت راز داری کے ساتھ ہجرت کی تیاری فرمائی اور اس مبارک سفر کے لیے حضور ابو بکر ؓ کو منتخب فرمایا ۔ ہجرت کی رات حضور ﷺ کے گھر کے باہر مشرکین کا پڑائوتھا لیکن اللہ نے ان لوگوں پر غفلت طاری کر دی اور حضور اکرم ﷺ اپنے گھر سے نکل کر حضور ابو بکر ؓ کے گھر تشریف لے آئے ۔حضور ابو بکر ؓ آپ ﷺ کا انتظار کر رہے تھے ۔ حضرت اسماء ؓ نے سفر کا سامان تیار کر رکھا تھا ۔ حضور ﷺ تشریف لے آئے تو حضرت اسماء ؓ نے کھانے کے تھیلے اور پانی کے مشکیرے کو باندھنا چاہا لیکن فوری طور پر کوئی رسی نہ ملی ۔ اس زماے میں عورتیں اپنے لباس کے اوپر کوئی رومال یا کپڑا کمر کے گرد باندھ لیتی تھیں ۔ حضرت اسماء ؓ کے پاس بھی ایسا ہی کمر بند تھا ۔ انہوں نے کمر بند کے دو ٹکڑے کے اور ان کی مدد سے کھانے کے تھیلے اور مشکیرے کو باندھ دیا اس قسم کا کمر بند’’نطاق‘ کہلاتا تھا ۔ حضور ﷺ نے اس موقع پر حضرت اسماء ؓ کو ’’ذات النطاقین‘‘ کا لقب عطا فرمایا یعنی دو کمر بند والی ۔
حضور ﷺ اور حضرت ابو بکر ؓ کے ہجرت کرنے کے کچھ دنوں بعد حضرت اسماء ؓ اپنی سوتیلی والدہ حضرت ام رومان ؓ ، بہن حضرت عائشہ ؓ اور بھائی حضرت عبداللہ بن ابی بکر ؓ کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آ گئیں ۔ حضرت اسماء ؓ کے شوہر حضرت زبیر ؓ بھی کچھ عرصے بعد اپنی والدہ حضرت صفیہ ؓ( حضور اکرمﷺ کی پھوپھی) کو لے کر مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچ گئے ۔
ہجرت کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماء کو ایک بیٹاعطا فرمایا اس کا نام انہوں نے عبداللہ رکھا ۔
حضرت اسماء ؓ کی والدہ کا نام قتیلہ تھا ۔ وہ مسلمان نہ ہوئی تھیں ۔ہجرت کے بعد ایک بار قتیلہ مدینہ منورہ آئیں اور انہوں نے حضرت اسماء ؓ سے کچھ رقم مانگی ۔ حضرت اسماء ؓ ان کی مدد کرنا چاہتی تھیں لیکن ان کے مسلمان نہ ہونے کی وجہ سے سوچ میں پڑ گئیں ۔ پھر وہ حضور اکرم ﷺ کے پاس گئیں او ران کو ساری بات بتا کر پوچھا کہ میں کیا کروں ۔ حضور اکرم ﷺ نے ان کو اپنی والدہ کی مدد کرنے کی اجازت دے دی اور فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ صلۂ رحمی(عزیزوں، رشتے داروںکے ساتھ اچھا سلوک) سے نہیں روکتا‘‘۔
حضرت اسماء ؓ بہت سخی تھیں ۔ ان کے صاحب زادے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کا کہنا ہے کہ میں نے اپنی ماں سے بڑھ کر فیاض کسی کو نہیں دیکھا ۔ جب حضرت عائشہ ؓ کا انتقال ہوا تو حضرت اسماء ؓ کو ترکہ میں جائیداد ملی ۔ حضرت اسماء ؓ نے اسے ایک لاکھ درہم میں فروخت کر دیا اور اپنے دو رشتہ داروں قاسم بن محمد اور ابن ابی عتیق کو یہ رقم دے دی کیونکہ وہ ضرورت مند تھے ۔
حضرت اسماء ؓ بہت بہادر تھیں ۔ وہ اپنے شوہر حضرت زبیر ؓ اور بیٹے عبداللہ ؓ کے ساتھ جنگوں میں شریک ہوتی تھیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں ۔
حضرت اسماءؓ علم والی بھی تھیں ۔ آپ ؓ نے حضور ﷺ سے چھپن احادیث روایت کی ہیں ۔
حضرت اسماء ؓ نے اپنی اولاد کی بہت اچھی طرح تربیت کی ۔ ان کو ہمیشہ سچ بولنا سکھایا اور بہادری سے لڑنے کی تعلیم دی ۔ جب مسلمانوں کے نظام حکومت میں خرابی آئی اور ایک حکمراں کے بعد اسی کے بیٹے کو حکمراں بنایا جانے لگا تو حضور ﷺ کے نواسے حضرت امام حسین ؓ نے اس طریقے کے خلاف جہاد کیا ۔ وہ جانتے تھے کہ آنحضرت ﷺ کے قائم کیے ہوئے خلافت کے نظام کو بدلنے سے بہت خرابیاں پیدا ہوں گی ۔ حضرت اسماء ؓکے صاحب زادے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے بھی حضرت امام حسین ؓ کی طرح جہاد کیا ۔ انہوں نے مکہ مکرمہ میں اپنا مرکز قائم کیا اور عراق اور حجاز کے لوگوں نے انہیں خلیفہ مان لیا ۔ وہ چھ سال تک مخالفین سے لڑتے رہے ۔
جب عبدالملک بن مروان حکمران بنے تو انہوں نے ایک سالار حجاج بن یوسف کو حضرت زبیر ؓ کی خلافت ختم کرنے کی ذمے داری سونپی ۔ چھ ماہ تک مکہ مکرمہ میں اناج پہنچنے نہ دیا گیا ۔ آخرت حضرت عبداللہ ؓ بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ۔
حضرت اسماء ؓ نے اس موقع پر بہت صبر و ہمت کا ثبوت دیا ۔ بیٹے کی شہادت کے کچھ عرصے بعد آپ ؓ بھی وفات پا گئیں ۔ آپ ؓ نے سو برس کی عمر پائی۔اللہ تعالیٰ آپ ؓ سے راضی ہو ۔ آمین ۔
ختم شد
یہ خاتون تھیں اللہ کے رسول ﷺ کے سب سے محبوب ساتھی حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی صاحب زادی حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا ۔
صحابیات میں حضرت اسماء ؓ کا مرتبہ بہت بلند ہے ۔ آپ ؓ کے شوہر حضرت زبیر بن العوام ؓ مشہور صحابی ؓ ہیں ۔ وہ ان دس صحابۂ کرام ؓ میں شامل ہیں جن کو اللہ کے رسول ﷺ نے جنت کی خوش خبری سنا دی تھی ۔ ان دس صحابہ ؓ کو ’’عشرہ مبشرہ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ حضرت اسماء کے صاحب زادے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ بھی صحابی تھے ۔حضرت اسماء ؓ کی چھوٹی بہن حضرت عائشہ ؓ تو ام المومنین ہیں ۔
حضرت اسماء ابی بکر ؓ ہجرت نبوی سے ستائیس سال پہلے مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں ۔ ایمان لانے والوں میں ان کا نمبر اٹھارہواں ہے ۔ اس زمانے میں مسلمان چھپ کر عبادت کرتے تھے ۔ پھر جب حضور ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کھلے عام دعوتِ اسلام دینا شروع کی تو مخالفتوں کا طوفان آ گیا ۔ حضرت اسماء ؓ بتاتی ہیں کہ ایک بار خانہ کعبہ میں آنحضرت ﷺ پر مشرکین نے حملہ کر دیا ۔ کسی نے آ کر ہمیں خبر کی ۔ میرے والد ( حضرت ابو بکرؓ) فوراً خانہ کعبہ کی طرف دوڑے ۔ وہاں انہوں نے کفار کو روکنے کی کوشش کی ۔ کفار نے ان کو اتنا مارا پیٹا کہ وہ بے ہوش ہو گئے ۔ ان کو اٹھا کر گھر لایا گیا ۔ وہ اتنے زخمی تھے کہ ہم ان کے سر کو ہاتھ لگاتے تھے تو ان کے بال جھڑ جاتے تھے ۔
تیرہ برس تک مکہ مکرمہ میں دعوت دین دینے کے بعد حضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کا حکم ہوا ۔ حضور ﷺ نے بہت راز داری کے ساتھ ہجرت کی تیاری فرمائی اور اس مبارک سفر کے لیے حضور ابو بکر ؓ کو منتخب فرمایا ۔ ہجرت کی رات حضور ﷺ کے گھر کے باہر مشرکین کا پڑائوتھا لیکن اللہ نے ان لوگوں پر غفلت طاری کر دی اور حضور اکرم ﷺ اپنے گھر سے نکل کر حضور ابو بکر ؓ کے گھر تشریف لے آئے ۔حضور ابو بکر ؓ آپ ﷺ کا انتظار کر رہے تھے ۔ حضرت اسماء ؓ نے سفر کا سامان تیار کر رکھا تھا ۔ حضور ﷺ تشریف لے آئے تو حضرت اسماء ؓ نے کھانے کے تھیلے اور پانی کے مشکیرے کو باندھنا چاہا لیکن فوری طور پر کوئی رسی نہ ملی ۔ اس زماے میں عورتیں اپنے لباس کے اوپر کوئی رومال یا کپڑا کمر کے گرد باندھ لیتی تھیں ۔ حضرت اسماء ؓ کے پاس بھی ایسا ہی کمر بند تھا ۔ انہوں نے کمر بند کے دو ٹکڑے کے اور ان کی مدد سے کھانے کے تھیلے اور مشکیرے کو باندھ دیا اس قسم کا کمر بند’’نطاق‘ کہلاتا تھا ۔ حضور ﷺ نے اس موقع پر حضرت اسماء ؓ کو ’’ذات النطاقین‘‘ کا لقب عطا فرمایا یعنی دو کمر بند والی ۔
حضور ﷺ اور حضرت ابو بکر ؓ کے ہجرت کرنے کے کچھ دنوں بعد حضرت اسماء ؓ اپنی سوتیلی والدہ حضرت ام رومان ؓ ، بہن حضرت عائشہ ؓ اور بھائی حضرت عبداللہ بن ابی بکر ؓ کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آ گئیں ۔ حضرت اسماء ؓ کے شوہر حضرت زبیر ؓ بھی کچھ عرصے بعد اپنی والدہ حضرت صفیہ ؓ( حضور اکرمﷺ کی پھوپھی) کو لے کر مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچ گئے ۔
ہجرت کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماء کو ایک بیٹاعطا فرمایا اس کا نام انہوں نے عبداللہ رکھا ۔
حضرت اسماء ؓ کی والدہ کا نام قتیلہ تھا ۔ وہ مسلمان نہ ہوئی تھیں ۔ہجرت کے بعد ایک بار قتیلہ مدینہ منورہ آئیں اور انہوں نے حضرت اسماء ؓ سے کچھ رقم مانگی ۔ حضرت اسماء ؓ ان کی مدد کرنا چاہتی تھیں لیکن ان کے مسلمان نہ ہونے کی وجہ سے سوچ میں پڑ گئیں ۔ پھر وہ حضور اکرم ﷺ کے پاس گئیں او ران کو ساری بات بتا کر پوچھا کہ میں کیا کروں ۔ حضور اکرم ﷺ نے ان کو اپنی والدہ کی مدد کرنے کی اجازت دے دی اور فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ صلۂ رحمی(عزیزوں، رشتے داروںکے ساتھ اچھا سلوک) سے نہیں روکتا‘‘۔
حضرت اسماء ؓ بہت سخی تھیں ۔ ان کے صاحب زادے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کا کہنا ہے کہ میں نے اپنی ماں سے بڑھ کر فیاض کسی کو نہیں دیکھا ۔ جب حضرت عائشہ ؓ کا انتقال ہوا تو حضرت اسماء ؓ کو ترکہ میں جائیداد ملی ۔ حضرت اسماء ؓ نے اسے ایک لاکھ درہم میں فروخت کر دیا اور اپنے دو رشتہ داروں قاسم بن محمد اور ابن ابی عتیق کو یہ رقم دے دی کیونکہ وہ ضرورت مند تھے ۔
حضرت اسماء ؓ بہت بہادر تھیں ۔ وہ اپنے شوہر حضرت زبیر ؓ اور بیٹے عبداللہ ؓ کے ساتھ جنگوں میں شریک ہوتی تھیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں ۔
حضرت اسماءؓ علم والی بھی تھیں ۔ آپ ؓ نے حضور ﷺ سے چھپن احادیث روایت کی ہیں ۔
حضرت اسماء ؓ نے اپنی اولاد کی بہت اچھی طرح تربیت کی ۔ ان کو ہمیشہ سچ بولنا سکھایا اور بہادری سے لڑنے کی تعلیم دی ۔ جب مسلمانوں کے نظام حکومت میں خرابی آئی اور ایک حکمراں کے بعد اسی کے بیٹے کو حکمراں بنایا جانے لگا تو حضور ﷺ کے نواسے حضرت امام حسین ؓ نے اس طریقے کے خلاف جہاد کیا ۔ وہ جانتے تھے کہ آنحضرت ﷺ کے قائم کیے ہوئے خلافت کے نظام کو بدلنے سے بہت خرابیاں پیدا ہوں گی ۔ حضرت اسماء ؓکے صاحب زادے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے بھی حضرت امام حسین ؓ کی طرح جہاد کیا ۔ انہوں نے مکہ مکرمہ میں اپنا مرکز قائم کیا اور عراق اور حجاز کے لوگوں نے انہیں خلیفہ مان لیا ۔ وہ چھ سال تک مخالفین سے لڑتے رہے ۔
جب عبدالملک بن مروان حکمران بنے تو انہوں نے ایک سالار حجاج بن یوسف کو حضرت زبیر ؓ کی خلافت ختم کرنے کی ذمے داری سونپی ۔ چھ ماہ تک مکہ مکرمہ میں اناج پہنچنے نہ دیا گیا ۔ آخرت حضرت عبداللہ ؓ بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ۔
حضرت اسماء ؓ نے اس موقع پر بہت صبر و ہمت کا ثبوت دیا ۔ بیٹے کی شہادت کے کچھ عرصے بعد آپ ؓ بھی وفات پا گئیں ۔ آپ ؓ نے سو برس کی عمر پائی۔اللہ تعالیٰ آپ ؓ سے راضی ہو ۔ آمین ۔
ختم شد