شکریہ امریکا۔ سی پیک پر بات ہونی چاہیے

186

امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی میں بریفنگ دیتے ہوئے بھارتی زبان میں بلکہ بھارتی الزامات اور دعووں ہی کو دہرا دیا اور کہا ہے کہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ متنازع علاقوں سے گزرتا ہے جو نئے تنازعات جنم دے سکتا ہے۔ کسی ملک کی من مانی قبول نہیں کریں گے۔ ہم چین کے ساتھ مل کر کام کرسکتے ہیں لیکن غلط سمت کی مخالفت کریں گے۔ پاکستان اور چین نے امریکی دعوے اور الزامات کو مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ منصوبے کو اقوام متحدہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ 70 سے زیادہ ممالک نے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ چین نے وضاحت کی کہ امریکی اعتراضات درست نہیں۔ سی پیک کے باعث مسئلہ کشمیر پر اصولی موقف تبدیل نہیں ہوگا۔ اس موضوع پر مکالمہ بھی ہوسکتا ہے اور دونوں ممالک یعنی امریکا اور بھارت اپنے موقف پر دلائل بھی دے سکتے ہیں لیکن امریکا نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ پاکستان کا دوست نہیں ہے۔ اب ہمارے حکمرانوں کو سمجھنا چاہیے کہ امریکی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونے یا بھارت کے در پر دست بستہ کھڑے رہنے میں ملک و قوم کا بھلا ہے یا پاکستان کے وقار اور خود مختاری کے احترام میں قوم کا وقار بھی ہے اور خود ان کی عزت بھی۔ گندم کی بوریاں دینے پر جو شکریہ کہا گیا تھا اور اونٹوں کی گردنوں میں شکریہ امریکا لکھ کر لٹکایاگیا تھاشاید اس سے زیادہ اب امریکی رویے نے شکریہ امریکا کا بورڈ نصب کرنے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ یہ تختی اونٹوں کی گردنوں پر تو نہیں حکمرانوں کے گلے میں ضرور لٹکائی جاسکتی ہے۔ جو بات بات پر تھینک یو امریکا کہتے نہیں تھکتے تھے۔ سی پیک پر امریکی اعتراضات اپنی جگہ لیکن امریکا نے اعتراض کرکے سی پیک کے بارے میں پاکستان کے اندر موجود تشویش کی لہروں کو بھی تیز کردیا ہے۔ پاکستان میں سی پیک کے حوالے سے بہت سے لوگوں کو خدشات ہیں کہ جو رقم پاکستان پر لگائی جارہی ہے اس قرض کو اور اس کے سود کو ادا کرنے کے لیے پاکستان کے پاس رقم کہاں سے آئے گی۔ ابھی ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر دینا مشکل ہے تو آنے والے برسوں میں 4 کھرب ڈالر کیسے ادا کیے جائیں گے۔ عالمی بینک سے یا آئی ایم ایف جو قرض لیے جاتے ہیں ان کے سخت اصولوں اور سود در سود نظام کے باوجود ان سے کچھ سہولتیں بھی حاصل کی جاسکتی ہیں اور ان سے قرض معاف بھی کرائے جاسکتے ہیں۔ چین سے کس طرح نمٹیں گے،پاکستانی قوم یہ جاننے کا حق رکھتی ہے کہ اس کے نا اہل حکمران وسائل میں اضافے کی اہلیت سے عاری ہیں تو پھر یہ چند برس بعد پاکستان پر بھاری قرض کس طرح اتاریں گے۔ یقینی طور پر موجودہ پارٹی قرض اتارنے کے وقت برسراقتدار نہیں ہوگی۔ کسی اور کی باری ہوگی اور وہ کہے گا کہ یہ قرض ہمیں ورثے میں ملے ہیں پھر یہی قرضے لینے والی پارٹی دوبارہ اقتدار میں آئے گی اور کہے گی کہ ہم ملک کو ترقی دیں گے۔ پیرس، لندن اور نہ جانے کون کون سے شہروں کی طرح پاکستان کے شہر بنادیے جائیں گے لیکن یہ کبھی نہیں ہوگا۔ کیونکہ لاڑکانہ کی پیپلزپارٹی آج تک لاڑکانہ کو پیرس نہیں بناسکی۔ زرداری صاحب نوابشاہ کو لندن نہیں بناسکے۔ ایک طرف تو یہ صورتحال دوسری طرف یہ حالات ہیں کہ سی پیک کے نام پر ترقی کے بہت سے کام ہورہے ہیں جن میں سڑکیں سر فہرست ہیں خصوصاً کراچی میں پانچ بڑی سڑکیں ہدف ہیں۔لیکن کیا صرف پانچ سڑکیں کراچی ہیں۔ کیا بڑی بڑی سڑکیں ہی باقی ملک ہیں، لوگوں کو پانی نہیں ملتا، بجلی نہیں ملتی اس کے بارے میں کہا جارہاتھا کہ 2018ء کے بعد بجلی کا بحران ختم ہوجائے گا۔ لیکن کیا ایسا ہو جائے گا 2018ء تو آیا ہی چاہتا ہے۔ عوام کو ٹرانسپورٹ، صحت، تعلیم کی سہولتیں میسر نہیں روز گار کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ سی پیک میں ہزاروں ملازمتیں ہیں لیکن یہ نہیں بتایا جارہا کہ کتنے غیر ملکی خصوصاً چینی یہاں آکر ملازمت کریں گے جو منصوبے پاکستان میں لگائے جارہے ہیں وہ کن شرائط پر لگائے جارہے ہیں پاکستان کو کیا ملے گا اور منصوبہ لگانے والوں کو کیا ملے گا۔ جس طرح پی ٹی سی ایل کے ای ایس سی کی نجکاری کے وقت حقائق چھپائے گئے تھے اسی طرح اب بھی کیا جارہا ہے اور آج کے الیکٹرک اور حکومت کا معاہدہ ایک مسئلہ بنا ہوا ہے کسی کو معلوم ہی نہیں کہ کے ای ایس سی کو کن شرائط پر بیچا گیا ۔ پی ٹی سی ایل کی ملکیت کس کے پاس ہے۔ پاکستان اسٹیل اور پی آئی اے کو بھی اسی طرح مشتبہ انداز میں بیچنے کی تیاریاں ہیں۔ ایسے میں اگر امریکا نے سی پیک پر اعتراضات اٹھائے ہیں تو امریکی اعتراضات کا جواب دیا جانا چاہیے لیکن یہاں شکریہ امریکا ضرور کہنا چاہیے کہ اس نے پاکستانی قوم کو بھی اس منصوبے کے فوائد و نقصانات کا جائزہ لینے کا موقع فراہم کیا ہے۔