تصویر یں بولتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ صائمہ تسمیر،ملائیشیا

390

کہتے ہیں کہ تصویریں بولتی ہیں، مگر ہمیں ادراک ہوا کہ کچھ تصویریں صرف بولتی ہی نہیں بلکہ چیختی ہیں۔ ان کی چیخ آپ کو لرزا کر رکھ دیتی ہے، آپ چاہتے ہوئے بھی ان سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ آپ کھانا کھانے بیٹھیں یا کسی بات پرآپ کا ہنسنے یا بے ساختہ قہقہ لگانے کا دل چاہے تو عین اسی لمحے وہ چیختی چنگھاڑتی تصویریں سامنے آجاتی ہیں، پھر کہاں کی بھوک اور کہاں کی ہنسی۔۔۔!
آئیے! چشمِ تصور سے کچھ ایسی ہی چیختی تصویریں دیکھتے ہیں۔ میرے سامنے یہ آنکھوں میں آنسو سجائے کسی ماں کا لعل ہے، بمشکل چار سالہ معصوم، جس کی شکوہ کناں اداس نظریں دل چیر کر رکھ دیتی ہیں۔ وہ سراپا سوال بنا نظر آتا ہے کہ اے شہر اماں کے رہنے والو! میرا جرم تو بتاتے جاؤ۔۔۔ میرے ماں باپ مجھ سے کیوں چھین لیے گئے۔ میرے پیارے گھر کو کیوں جلادیا گیا۔ میر ے بہن بھائی، دوست، میرے کھلونے کہاں کھوگئے؟
میں اس ننھے فرشتے کے سوالات سے گھبرا کر آگے بڑھتی ہوں تو دس سالہ فاطمہ کی پتھرائی آنکھیں میرے قدم جکڑ لیتی ہیں۔ فاطمہ جیسے اس لمحے میں قید ہوکر رہ گئی ہے، جس لمحے اس کے گھر کو ماں باپ سمیت برمی درندوں نے آگ لگا دیا تھا۔ اس کی خوش قسمتی یا بد قسمتی کہ وہ گھر سے باہر کھیتوں میں سہلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی یوں ان بھیڑیوں کے ہاتھوں ذبح ہونے سے بچ گئی۔ پھر جان بچا کر بھاگنے والوں کے ساتھ بنگلا دیش پہنچ گئی، جہاں نہ اس کی پیار کرنے والی ماں موجود ہے، نہ ہی اس کے لاڈ اٹھانے والا شفیق باپ۔ وہ ہر چہرے میں اپنے ماں باپ کو کھوجتی ہے۔ بھوک کے عالم میں ماں کی ہاتھ کے بنے لذت بھرے کھانوں کی یاد تڑپا کر رکھ دیتی ہے۔ والدین کے شفقت بھرے لمس کو ترستی فاطمہ کی آنکھوں کی ویرانی دیکھی نہیں جاتی، جس کی ہنستی بستی دنیا اجاڑدی گئی۔ اس کی اداس آنکھوں میں رقم ان گنت سوالات سے جسم میں بجلی سی دوڑگئی۔
میں فوراً آگے بڑھی تو دیکھتی ہوں کہ ایک اور داستانِ الم مجسم میرے سامنے ہے۔ جسے بیان کرنے کے لیے کسی لفظ کے سہارے کی ضرورت نہیں۔ یہ چار سال سے دس سال تک کے لاوارث یتیم معصوموں کی اجتماعی تصویر ہے، جن کے ماں باپ کو جلادیا گیا، ذبح کردیا گیا یا وہ راستے میں جان کی بازی ہار گئے۔ ان بچوں کی تعداد گیارہ ہزار تک بتائی جارہی ہے۔ ان میں کوئی عبداللہ ہوگا، کوئی عبدالرحمن تو کوئی یوسف و ابراہیم، جن کے ماں باپ نے ان کی پیدائش پر خوشیاں منائی ہوں گی۔ اپنے بچے کے بہترین مستقبل کے خواب دیکھے ہوں گے۔ انہیں زمانے کے سرد وگرم سے بچانے کی مقدور بھر سعی کی ہوگی، اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے لختِ جگر کی فرمائش پوری کی ہوگی، یہاں فاطمہ و زینب اور عائشہ و کلثوم بھی جابجا نظر آتی ہیں، جن کی کھلکھلاہٹ کہیں گم ہوگئی ہے، جن کے ناز نخرے اٹھانے والا، انہیں زبردستی کھانا کھلانے والا کوئی نہیں ہے۔ کوئی اللہ کا بندہ چند نوالے کھلا دے تو ٹھیک ورنہ ان کی خبرگیری کرنے والا کوئی نہیں۔ ان معصوموں پر ٹوٹی قیامت دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ان کی آنکھوں میں غموں نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ ان کے کھیلنے کودنے اور شرارت کرنے کے دن تھے، مگر سفاکوں نے ان کی ہنسی چھین لی، غم جیسے ان کی آنکھوں میں ٹھیر سا گیا ہے۔ انہیں محبت بھرے آشیانے، کھانے اور دواؤں کی ضرورت ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں معصوم جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ ان کی زندگی ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے، یہ ذہنی وجسمانی صدمے سے دوچار بچے منتظر آنکھوں سے ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔
ان معصوموں سے نظریں چراتے ہوئے آگے بڑھی تو روہنگیا بچے اپنی ڈرائنگ دکھاتے نظر آئے۔ کسی نے ان کی ذہنی حالت کی بہتری کے لیے کلر پینسل اور کاغذ دیے ہوں گے کہ بچے کچھ دیر کے لیے رنگوں سے کھیل کر خوش ہوجائیں گے۔ ہمارے بچے تو اپنی پسندیدہ پھل، جانور یا کوئی خوب صورت منظر بنا کر رنگوں سے سجاتے ہیں، لیکن ان بچوں کی زندگی کی طرح ان کی ڈرائنگ بھی نارمل نہیں تھی۔ تمام بچوں نے اپنی آنکھوں دیکھی وحشیانہ سفاکی کی عکاسی کی ہوئی تھی۔ اس سفاکیت نے ان کے تخیل سے وادی اراکان کی خوب صورتی اور سبزہ زار کو محو کرکے آگ و بارود کی بو بھردی تھی۔ موت کے سوداگر برمی فوج، جلتے گھر، اجڑی بستیاں، سربریدہ لاشیں ہی ان کے تخیل میں سمائی ہوئی تھی۔ جس کا اظہار انہوں نے اس سلیقے سے کیا کہ دیکھنے والے اپنے آنسووں پر قابو نہ رکھ پائے۔ شاید یہ بچے تاحیات ان دہشت ناک مناظر کو بھلا نہ پائے۔
اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کرتی اگلی تصویر پر نظر ڈالی تو دل ٹکرے ٹکرے ہوگیا۔ ایک بار پھر کربلا کا میدان سجایا گیا تھا۔ میرے سامنے زندگی سے آزاد بچوں کی تصویر تھی، ترتیب سے رکھی ان کی لاشیں خون کے آنسو رلا رہی تھیں۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے کھیلتے کھیلتے تھک کر سو گئے ہیں ابھی اٹھ کر چہچہانا شروع کردیں گے اور شرارتوں سے آسمان سر پر اٹھا لیں گے۔ مگر یہ معصوم پھول بن کھلے ہی مرجھاگئے۔ مصائبِ دنیا سے آزاد ہوکر وہ پرسکون گہری نیند سوگئے۔ جان بچا کر بھاگنے والے روہنگیا مہاجرین کی کشتی موسم کی خرابی کی باعث حادثے کا شکار ہوگئی تھی۔ اس حادثے میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد بے رحم موجوں کے نذر ہوگئی۔ خواتین اور بچوں سمیت اکیس افراد کی نمازِ جنازہ ادا کردی گئی جب کہ ساٹھ افراد تاحال لاپتا ہیں۔ ان چیختی چلاتی جھنجھوڑتی تصاویر کا ناختم ہونے والا سلسلہ ہے، کیا کیا دیکھیں گے کیا کیا دکھاؤں گی۔۔۔!
یہ حسرت و یاس کی تصویر بنی ایک ماں ہے جس کے خاندان کا کوئی فرد باقی نہ رہا۔ یہ غم سے نڈھال ایک بوڑھا باپ ہے، جس کے جوان بیٹے ذبح کردیے گئے، وہ جو اس کے بڑھاپے کا سہارا تھے، وہ محبوب اولاد کہ جنہیں پیار سے پالا تھا کہ ہمارے جنازے کو کندھا دیں گے لیکن انہیں بے دردی سے کاٹ دیا گیا۔ یہ بے بسی کی تصویر بنا ایک بھائی ہے جس کے سامنے اس کی معصوم لاڈلی بہن کی عزت کو تار تار کیا گیا۔ یہ ایک گم سم سی معصوم صورت عورت ہے۔
(باقی صفحہ 9 پر)
جس کا ایک محبت کرنے والا شوہر تھا، جان سے پیارے بچے تھے ایک محبت بھرا آشیانہ تھا جہاں زندگی مسکراتی تھی، ایک ہی لمحے میں سب ختم ہوگیا۔ وہ اپنے باپ کی نازوں پلی بیٹی، اپنے شوہر کی محبوبہ جس کی ضروریات و خواہشات بن کہے پوری ہوجاتی تھی، اس کا سائبان چھین لیا گیا، دوسروں کو دینے والا ہاتھ لینے والا ہاتھ بن گیا، اب اسے زندگی سے رشتہ قائم رکھنے کے لیے کسی امدادی ٹرک کے پیچھے بھاگنا پڑتا ہے، تب جا کر چند نوالے نصیب ہوتے ہیں۔
کوئی تو ان بولتی تصویروں میں چھپے درد کو محسوس کرے، کوئی تو ان کے دکھوں کا مداوا کرے، ان کی جگہ ہمارا کوئی عزیز ہوتا تو کیا ہم یونہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے؟ اگر ان معصوموں نے بروز حشر سوال کرلیا، ان مظلوموں نے ہمارا گریبان پکڑلیا کہ ہمیں کس جرم کی سزا دی گئی۔۔۔؟ تو کیا جواب ہوگا ہمارے پاس؟