اسلام آباد/سکھر(خبرایجنسیاں+مانیٹرنگ ڈیسک) عدالت عظمیٰ کے سابق جج جاوید اقبال کو چیئرمین نیب مقرر کردیا گیا۔وہ 4برس تک اس عہدے پر خدمات انجام دیں گے۔ وفاقی وزارت قانون کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا نام پیپلزپارٹی نے تجویز کیا تھا جس کی ن لیگ نے منظوری دی۔ دیگر جماعتوں کی جانب سے پیش کردہ نام مسترد کردیا گیا۔ قبل ازیں سکھر کے علاقے روہڑی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے اس معاملے سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے تجویز کیے گئے نام اچھے تھے لیکن مشاورت کے بعد جسٹس جاوید اقبال کے نام پر اتفاق ہوگیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کا عہدہ آنے والے وقت کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے، حکومت کو بتادیا تھا کہ چیئرمین نیب ایماندار شخص ہونا چاہیے۔ جسٹس جاوید اقبال کا ماضی شاندار ہے، دعا گو ہوں کہ جاوید اقبال ذمے داریاں خوش اسلوبی سے سرانجام دیں۔پیپلزپارٹی کے رہنما نے یہ بھی کہا کہ اب چیئرمین نیب کے معاملے پر سیاست نہ کی جائے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے جاوید اقبال کی تعیناتی کا محتاط خیرمقدم کیا ہے جب کہ عمران خان نے بنی گالہ میں آج پارٹی کا مشاورتی اجلاس طلب کرلیا ہے۔
یاد رہے کہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اس وقت جبری طور پر لاپتا ہونے والے افراد کے کمیشن کی سربراہی بھی کر رہے ہیں اور جبری طور پر لاپتا افراد کے بارے میں کام کرنے والی تنظیمیں اس کمیشن کی کارکردگی پر متعدد بار تحفظات کا اظہار کرچکی ہیں۔ جاوید اقبال اعلیٰ عدلیہ کے ان ججز میں شامل تھے جنہوں نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے پہلے عبوری آئینی حکمنامے کے تحت حلف اْٹھایا تھا۔سابق فوجی آمر کے دور میں مارچ 2007 ء میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہونے کے بعد اْنہیں پاکستان کا قائم مقام چیف جسٹس مقرر کیا گیا تھا۔جاوید اقبال عدالت عظمیٰ کے اس بینچ کی سربراہی بھی کر رہے تھے جس نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو یونیفارم میں صدارتی انتخابات میں حصہ لینے سے متعلق درخواستوں کے بارے میں حکم دیا تاہم اس کے ساتھ یہ شرط بھی لگا دی کہ جب تک پرویز مشرف اپنی وردی نہیں اتاریں گے جس کا انہوں نے قوم سے خطاب کے دوران وعدہ کیا تھا، اس وقت تک الیکشن کمیشن ان انتخابات کا اعلان نہیں کرے گا۔اس کے بعد 3نومبر2007 ء میں پرویز مشرف نے آرمی چیف کی حیثیت سے ملک میں ایمرجنسی لگا دی تھی۔
جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اس 7رکنی بینچ کا حصہ تھے جس نے ایمرجنسی کے فوری بعد یہ حکم دیا تھا کہ انتظامیہ ان احکامات کو تسلیم نہ کرے اور نہ ہی کوئی جج عبوری آئینی حکمنامے پر حلف اْٹھائے۔ اس عداتی حکم نامے کے بعد جاوید اقبال سمیت دیگر ججز کو ان کے گھروں میں ہی نظر بند کردیا گیا تھا۔2011 ء میں عدالت عظمیٰ کے جج کی حیثیت سے ریٹائر ہونے کے بعد انھوں نے ایبٹ آباد میں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی امریکی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے معاملے کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے عدالتی کمیشن کی سربراہی بھی کی۔ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ اس وقت کی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو پیش کردی گئی تھی جو ابھی تک منظر عام پر نہیں آسکی ہے۔