عزیر بلوچ کا قتل کے بعد لاشیں تیزاب سے مسخ کرنیکا اعتراف

370

کراچی (اسٹاف رپورٹر)سندھ ہائی کورٹ میں سینٹرل جیل کے حوالدار سمیت 4 شہریوں کی گمشدگی سے متعلق پولیس نے رپورٹ پیش کردی، لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ نے جے آئی ٹی میں قتل کا اعتراف کرلیا۔ عدالت نے ایس ایس پی سے 4 نومبر تک مقدمات کی پیش رفت رپورٹ طلب کرلی۔ تفصیلات کے مطابق سینٹرل جیل کے حوالدار سمیت 4 شہریوں کی گمشدگی سے متعلق درخواست کی سماعت سندھ ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ کے روبرو ہوئی۔ پولیس نے لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کا اعترافی بیان جے آئی ٹی عدالت میں پیش کردیا۔ پیش کی گئی جوائنٹ انٹیرو گیشن رپورٹ کے مطابق عزیر بلوچ نے حوالدار امین عرف لالہ، غازی خان، شیر افضل اور شیراز کو قتل کرنے کا اعتراف کرلیا۔ عزیر بلوچ نے 2011ء میں محمد امین سے بدلہ لینے کیلیے قتل کیا۔ مقتولین کی لاشیں تیزاب میں پھینکی گئیں۔ جے آئی ٹی کے مطابق عزیر بلوچ نے اعتراف کیاکہ 2003ء میں رحمان ڈکیت گروپ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ عزیر بلوچ نے اعتراف کیا کہ مختلف ذرائع سے اسلحہ خریدا جو مختلف افراد پشین اور کوئٹہ سے اسمگل کرکے کراچی لاتے تھے۔ پیپلز امن کمیٹی مسلح دہشت گرد گروہ بنایا۔ پولیس افسران کی تعیناتی اور بھتا وصولی کے لیے علیحدہ مسلح گروپس بنائے، جس میں ملا نثار، استاد تاجو، سہیل ڈاڈا اور سلیم چاکلیٹ سمیت دیگر افراد کی معاونت حاصل تھی۔ تمام کاموں کے لیے مجھے سیاسی حمایت حاصل تھی۔ سرپرستی انسپکٹر یوسف بلوچ، کانسٹیبل چاند خان نیازی و دیگر کرتے تھے۔ 2010ء میں عامر عرف انڈا کو ملا نثار کی مدد سے قتل کرایا۔ نومبر 2010ء میں ثاقب ملک محمد خان کو قتل کیا۔ جے آئی ٹی میں عزیز بلوچ نے بتایا کہ 2012ء میں پولیس موبائل پرحملہ کیا۔ ارشد پپو کو اغوا کرکے قتل کیا اور اس کیلیے انسپکٹر یوسف بلوچ اورایس ایچ او جاوید بلوچ نے مدد کی۔ ارشد پپو کے اغوا کے لیے پولیس موبائل استعمال کی۔ 2013ء میں رینجرز اہلکار اعجاز اور منیر کو قتل کرایا۔ جے آئی ٹی میں عزیر بلوچ نے اعتراف کیا کہ ایس ایس پی چودھری اسلم کے ساتھ کئی پولیس مقابلے کیے۔ مقابلوں میں 5 سے 6 افراد جاں بحق ہوئے۔ کونسلر تنویر کو بھی قتل کرایا۔ بغدادی، چاکیواڑہ کلاکوٹ، پولیس کوارٹرز پر حملے کرائے۔ کروڑوں روپے کابھتا مختلف لوگوں اورمحکموں سے وصول کیا۔ عزیربلوچ نے انکشاف کیا کہ ایک کروڑ20 لاکھ روپے ماہانہ بھتہ وصول کرتاتھا۔ ڈائریکٹر نثارمورائی سفارش پرتعینات ہوئے۔ سی سی پی او وسیم احمد، ایس ایس پی فاروق اعوان کے ساتھ دوستانہ رابطہ رکھا۔ افسران کے کئی کام بھی کیے۔ حالات خراب ہوئے تو ہدایت ملنے پر بیرون ملک چلا گیا۔ حاجی ناصرنے مجھے ایران کابارڈرکراس کرایا۔ایرانی ایجنسی نے تحفظ دینے کی ضمانت دی۔ ایرانی ایجنسی کو سیکورٹی اداروں کی تنصیبات سے آگاہ کیا اور سیکورٹی اداروں کے افسران، دفاترکی معلومات دی۔ عدالت نے 6 نومبر تک متعلقہ ایس ایس پی سے کیس کی پیش رفت رپورٹ طلب کرلی ہے۔