لاہور (وقائع نگار خصوصی) جماعت اسلامی صوبہ پنجاب کے ذمے داران کا ایک اہم اجلاس گزشتہ روز امیر جماعت اسلامی پنجاب میاں مقصود احمد کی زیر صدارت منصورہ لاہور میں ہوا۔ اجلاس میں ڈاکٹر سید وسیم اختر، بلال قدرت بٹ، جاوید قصوری، چودھری عزیر لطیف، چودھری اصغر علی گجر، شیخ عثمان فاروق، سردار ظفر حسین خان، محمد انور گوندل، مولانا فاروق احمد، رمضان روہاڑی اور دیگر ذمے داران نے شرکت کی۔ اجلاس میں سودی نظام معیشت، فحاشی وعریانی اور دیگر ایشوز پر متفقہ طور پر قرار دادیں منظور کی گئیں۔ قراردادوں میں کہا گیا ہے کہ یہ اجلاس اسلامی جمہوریہ پاکستان جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا، اس میں سودی نظام معیشت کے مکمل خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے۔ کیونکہ سودی کاروبار اللہ اور رسولؐ کیخلاف کھلی جنگ ہے۔ سود ایک ایسی لعنت ہے جو فرد یا ملک اس کا شکار ہوتا ہے، اس کی معیشت تباہ وبرباد ہوکر رہتی ہے۔ اس ملک کی شریعت کورٹ نے سود کو حرام قرار دیتے ہوئے اس کو ختم کرنے کا فیصلہ دیا لیکن ہمارے عاقبت نا اندیش حکمرانوں نے نہ صرف اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کیخلاف اپیل میں چلے گئے۔ یہ اجلاس اس اقدام کی پُرزور مذمت کرتا اور مطالبہ کرتا ہے کہ اپیل کو فوراً واپس لیا جائے بصورت دیگر مسلمانان پاکستان اس کے خلاف ایسی تحریک چلائیں گے کہ اقتدار کے ایوان لرزہ براندام ہوجائیں گے۔ جماعت اسلامی پنجاب نے پورے صوبے میں سود کیخلاف مہم چلانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یہ اجلاس معاشرے میں بڑھتی ہوئی عریانی اور فحاشی کے کلچر پر گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ اس نظریاتی ملک کے میڈیا سے جس طرح کھلے عام عریانی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ پیمرا اس وقت تو حرکت میں آجاتا ہے جب کوئی بات حکومت کے خلاف نشر ہوجائے لیکن ٹی وی پر فحش ڈرامے، ذومعنی جملے اور عریاں لباس اسے نظر نہیں آتے۔ بے حیائی کے اس کلچر سے نسل نو کے اخلاق تباہ ہورہے ہیں اور وہ مادر پدر آزادی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اجلاس پیمرا اور حکومت کو یاد دلاتا ہے کہ یہ کروڑوں مسلمانوں اور محمد عربیؐ کے غلاموں کا ملک ہے۔ یہ ملک ایک نظریے کے تحت وجود میں آیا ہے، ہم اس بے حیائی کے کلچر کو برداشت نہیں کریں گے۔ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ پیمرا اپنی ذمے داری پوری کرے۔ فحش تصاویر اور مناظر کی اشاعت بند کردے۔ یہ اجلاس پاکستان جیسے زرعی ملک میں کسانوں کے مسائل سے مسلسل صرف نظر کرنے پر حکومتی پالیسی کی مذمت کرتا ہے۔ حکومت ترقی کے دعوے تو بہت کرتی ہے لیکن زراعت جو پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اس کو تباہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ کھادوں اور ڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، لیکن کسان اپنا خون پسینہ ایک کرکے جو فصل اگاتا ہے، اسے اس کی صحیح قیمت وصول نہیں ہوتی۔ کسان مشکلات کا شکار ہورہا ہے۔ کپاس کی فصل کی ابھی تک قیمت مقرر نہیں کی گئی۔ اسی طرح گنے کے کاشتکاروں کوجس طرح تنگ کیا جارہا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ گنے کے کاشتکاروں کو شوگر ملز والے ادائیگی نہیں کرتے۔ اس صورتحال نے کسانوں کو اضطراب میں مبتلا کردیا ہے۔ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ کپاس کی فوری طور پر قیمت مقرر کی جائے۔ گنے کی پوری فصل اٹھانے کا انتظام کیا جائے اور کسانوں کو بروقت ادائیگی کی جائے۔