لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب سے کیپٹن صفدر کے سسر میاں نواز شریف کو نا اہل قرار دے کر عدلیہ نے وزارت عظمیٰ سے برطرف کیا ہے تب سے نواز شریف سمیت پوری مسلم لیگ ن عدالتی فیصلے کو فوج اور عدلیہ کی ملی بھگت اور سازش قرار دینے پر تلی ہوئی ہے۔ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ فوج ہی نواز شریف کی برطرفی کے پیچھے ہے۔ اب کیپٹن صفدر نے یہ تاثر دیا ہے کہ پاک فوج میں قادیانی اور احمدی اعلیٰ عہدوں پر قابض ہیں ۔ یہ فوج کو بدنام کرنے کی کوشش بھی ہوسکتی ہے ورنہ کیپٹن صفدر کو اچانک یہ سب کچھ کیوں یاد آگیا جو ایک معلوم حقیقت ہے۔ اسی طرح عدلیہ میں بیٹھے لوگوں سے حلف نامے کا مطالبہ کرنے سے بین السطور یہ کہا گیا ہے کہ عدلیہ میں بھی قادیانی بیٹھے ہیں ۔ اس وقت ن لیگ کا ہر چھوٹا بڑا عدلیہ اور فوج کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلانے میں لگا ہوا ہے۔ کیپٹن صفدر کی اہلیہ مریم نواز تو عدلیہ کا امتحان لینے کے لیے لندن سے واپس آئی ہیں اور جس شان سے آئی ہیں وہ دنیا نے دیکھا ہے۔ بار بار کہہ رہی ہیں کہ یہ احتساب نہیں انتقام ہے۔ حالاں کہ ان کے شوہر کیپٹن صفدر کو نیب نے ائر پورٹ سے تحویل میں لے کر بڑے احترام سے چند گھنٹے اپنے پاس رکھا اور صبح ہی دونوں میاں بیوی کی ضمانت ہوگئی۔ عام ملزم ہوتا تو اس سے مہمانوں جیسا سلوک نہ ہوتا اور کئی دن کا ریمانڈ لے کر بہت کچھ اگلنے پر مجبور کردیا جاتا۔ مریم نواز کی کوئی سیاسی یا انتظامی حیثیت نہ ہونے کے باوجود انہیں بھرپور پروٹوکول دیا گیا اس کے باوجود ایک خبر ہے کہ مریم نواز کو پروٹوکول نہ دینے پر رجسٹرار احتساب عدالت خالد بھٹی کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ خالد بھٹی شریف خاندان کی احتساب عدالت میں پیشیوں کے دوران میں خفیہ ملاقاتیں بھی کرواتے تھے۔ دراصل اس وقت پوری افسر شاہی شش و پنج میں مبتلا ہے کہ کس کا ساتھ دے اور کیا پتا کون پھر برسر اقتدار آجائے۔ بیورو کریسی کی وفاداریاں حکومت وقت ہی کے ساتھ ہوتی ہیں اور ویسے بھی اس وقت وفاق اور پنجاب میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی پارٹی ہی برسر اقتدار ہے۔ لیکن کیپٹن صفدر کے مذکورہ خطاب سے لیگی رہنماؤں نے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ذاتی رائے قرار دے دیا۔
پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے انداز خطابت کو غیر ضروری قرار دیا ہے۔ اس سے قادیانیوں کے ووٹ کٹ سکتے ہیں ۔ لیکن بریلوی مکتب فکر کے ووٹ بڑھ سکتے ہیں۔ یہ سارا سیاسی کھیل ہے اور کچھ سیاسی مبصرین قادیانیوں کی حمایت میں آگے بڑھ کر کہہ رہے ہیں کہ اس سے اقلیتوں پر برا اثر پڑے گا۔ کیپٹن صفدر نے کہا ہے کہ کیا پتا قادیانی اسرائیل کا دورہ کرتے ہوں ۔ اسرائیل میں قادیانیوں کا بڑا مضبوط مرکز ہے اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی جب اسرائیل کے دورے پر گئے تھے تو قادیانی سربراہ سے بھی گرمجوشی سے ملے تھے۔ قادیانیوں اور صہیونیوں کا گٹھ جوڑ بڑا پرانا ہے۔ لیکن کیپٹن صفدر کی باتیں خواہ کتنی ہی درست ہوں اصل مقصد کچھ اور معلوم ہوتا ہے۔ اسی قومی اسمبلی میں بڑی ہوشیاری سے ختم نبوت کے حلف نامے کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی جو بروقت ناکام بنا دی گئی۔ لیکن جس بل کے ذریعے الیکشن کے قواعد میں تبدیلی کر کے عدالت سے نا اہل قرار پانے والے مجرم کو سیاسی جماعت کا سربراہ بنانے کی منظوری دے دی گئی اس کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لیے حلف نامے میں دانستہ تحریف کی گئی اور سب اسی کی طرف لگ گئے ، دوسرا معاملہ پس پشت چلا گیا ، وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اسے معمولی سی بھول چوک قرار دیتے ہیں ۔ کیپٹن صفدر نے جب یہ مسئلہ چھیڑ ہی دیا ہے تو وہ یہ بھی تحقیق کریں کہ کن کن اہم مناصب پر قادیانی براجمان ہیں ۔ پاکستان میں سیاسی یا ذاتی وجوہ کی بنا پر کسی پر بھی قادیانی ہونے کا الزام عاید کردیا جاتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف بار بار اس کی تردید کرتے رہے گو کہ ان کا سسرال قادیانی ہے۔ جنرل باجوہ پر الزام لگانے و الوں نے تو رجوع کرلیا۔