قرآن کے بعد نبوت اور وحی کا دعوی تمام انبیاء کرام کی توہین ہے۔ یہ ایک ایسا جرم ہے جو کبھی معاف نہیں کیا جاسکتا۔ ختمیت کی دیوار میں سوراخ کرنا تمام نظام دینیات کو درہم برہم کردینے کے مترادف ہے۔ قادیانی فرقے کا وجود عالم اسلام، عقائد اسلام، شرافت انبیا، خاتمیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور کاملیت قرآن کے لیے قطعاً مضر ومنافی ہے۔ ہمیں قادیانیوں کے رویے اور دنیائے اسلام سے متعلق ان کی حکمت عملیوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ جب قادیانی مذہبی اور معاشرتی معاملات میں علیحدگی کی پالیسی اختیار کرتے ہیں تو پھر سیاسی طور پر مسلمانوں میں شامل ہونے کے لیے کیوں مضطرب ہیں (علامہ اقبال) قادیانی برٹش امپریلزم (برطانوی استعمار) کے کھلے ایجنٹ ہیں اور مسلمانوں میں ففتھ کالم کی حیثیت رکھتے ہیں (مفکر احرار چودھری افضل حق) قادیانی عجمی مسلمانوں میں یہودیوں کی فطرت پر استوار ایک ایسی تحریک ہے جو مسلمانوں میں سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے لیے ان کی وحدت میں نقب لگاتی ہے لیکن ان کے حقوق غصب کرنے کے لیے معاشرتی طور پر ان کے دائرے میں رہنے کے لیے اصرار کرتی ہے۔ قادیانی اس ملک کے عظیم ترین سیاسی خطرے کا نام ہے (آغا شورش کاشمیری)
قادیانی پاکستان میں وہی مقام چاہتے ہیں جو امریکا میں یہودیوں کو حاصل ہے۔ ضلع گورداسپور کے علاقے قادیان میں انگریزوں نے مسلمانوں میں جہاد کے خاتمے کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی کو جھوٹی نبوت کا ڈھونگ رچانے کا مشن سونپا۔ پاکستان بننے تک جہاں جہاں ان کا سایہ پڑا وہاں ایمان کی بستیاں اجڑ گئیں۔ 1952میں پاکستان کے قادیانی وزیر خارجہ ظفراللہ خان نے کراچی میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے احمدیت کو زندہ اور اسلام کو مردہ مذہب قرار دیا اور بلوچستان کو احمدی ریاست بنانے کا منصوبہ بنایا۔ پاکستان کو قادیانی اسٹیٹ بنائے جانے کے خطرے کے پیش نظر 1953میں عطااللہ شاہ بخاری کی قیادت میں مجلس احرار نے تحفظ ختم نبوت کے نام سے تحریک شروع کی۔ علماء کرام اور مسلمانان پاکستان نے اس تحریک میں بے شمار قربانیاں دیں۔
اس تحریک کے سرکردہ رہنماؤں میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا عبدالستار خان نیازی، سید مظفر علی شمسی، ماسٹر تاج الدین انصاری، صاحب زادہ فیض الحسن، شیخ حسام الدین، سید ابوذر بخاری، مولانا سید ابوالاعلی مودودی، مولانا محمد علی جالندھری، قاضی احسان احمد شجاع آبادی اہم ہیں۔ اس تحریک میں حصہ لینے اور قادیانیوں کے خلاف ایک رسالہ لکھنے پر مولانا سید ابوالاعلی مودودی کو سزائے موت سنائی گئی۔ عالمی دباؤ پر حکومت اس سزا پر عمل نہ کرسکی۔ ریاست پاکستان کی طرف سے ختم نبوت کا دفاع کرنے والے ہزاروں جانفروشوں کو لاہورکی مالروڈ، کراچی، گوجرانوالہ، ساہیوال اور دیگر شہروں میں شہید کردیا گیا۔ رہنماؤں کو گرفتار کرلیا گیا۔ مجلس احرار کو خلاف قانون قراردے دیا گیا۔ اس تحریک کے اکیس برس بعد نشتر میڈیکل کالج کا واقعہ پیش آیا۔ تفریح کے لیے سوات جاتے ہوئے ربوہ ریلوے اسٹیشن پر طلبہ کی قادیانیوں سے تکرار ہوگئی۔ واپسی پر پانچ ہزار قادیانیوں نے ربوہ ریلوے اسٹیشن پر طلبہ کو لاٹھیوں سے شدید زدوکوب کیا۔ ٹرین فیصل آباد پہنچی تو زخمی طلبہ کی بری حالت دیکھ کر شہری بے تاب ہوگئے۔ خبر پھیلتے ہی پورے پنجاب میں قادیانیوں کے خلاف ہنگامے پھوٹ پڑے۔ مولانا سید محمد یوسف بنوری کی قیادت میں مولانا مفتی محمود، علامہ شاہ احمد نورانی، سید محمود احمد رضوی، پروفیسر غفور احمد، آغا شورش کاشمیری، نوابزادہ نصراللہ خان، سید مظفر علی شمسی نے تحریک کو ملک گیر سطح پر منظم کیا۔ 14جون کو ملک گیر سطح پر کامیاب ہڑتال ہوئی۔ آخر حکومت نے تحریک کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔ قائدین نے اپنے مطالبات پیش کیے جن میں سرفہرست قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم قرار دینا، کلیدی عہدوں سے ہٹانا اور ربوہ کو کھلا شہر قرار دینا تھا۔ 30جون کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کے بیس ارکان نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا بل پیش کیا۔ قومی اسمبلی میں اس بل پر دوماہ تک بحث ہوتی رہی۔ قادیانی پیشوا مرزا ناصر احمد کو بھی بلوایا گیا۔ مولانا مفتی محمود اور اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے مرزا ناصر سے زبردست جرح کی اور اسے باربار لاجواب کردیا۔ سب کمیٹی کے چھ ارکان کو وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے وزیراعظم ہاؤس بلایا۔ سوچنے کی مہلت مانگی۔ بالاخر 7ستمبر 1974 کو قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردے دیا۔
یہ ہے وہ جدوجہد جس کے نتیجے میں آج امت ختم نبوت کے عقیدے سے اس مضبوطی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے کہ صرف ایک لفظ کی تبدیلی کرتے ہوئے عوام کے ممکنہ ردعمل کے خوف سے حکمرانوں کی ٹانگیں کانپنے لگیں اور انہوں نے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر ترمیم واپس لے لی۔ علماء کرام نے امت کو ختم نبوت کے عقیدے کی اہمیت سے آگاہ کیا، اس کی تعلیم دی اور اپنے عمل سے ثابت کیا کہ ختم نبوت کا عقیدہ امت کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اسلام نے زندگی کے تمام شعبہ ہائے حیات کے لیے احکامات دیے ہیں ان کا نفاذ اور ان پر عمل بھی اتنا ہی ضروری ہے جتناکہ ختم نبوت کے عقیدے کا۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے کہا تھا ’’جو رسول کریم ؐ کے زمانے میں ایک رسی بھی دیتا تھا اگر ان کے بعد دینے سے انکار کرے گا تو میں اس کے خلاف اعلان جنگ کروں گا‘‘۔ اسلام کے احکامات مذاق نہیں ہیں۔ اگر کوئی ایک حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے تو پھر اس کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے محترم علماء کرام جو انبیاء کے وارث ہیں امت کو تعلیم دیں، امت کو تیار کریں کہ سیاست میں، معیشت میں، عدالت میں، خارجہ پالیسی میں، تعلیم میں ہر جگہ اسلامی احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہورہی ہے، اکثر وبیش تر شعبہ ہائے حیات میں عملی طور پر اسلامی احکامات کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ علماء کرام عقیدہ ختم نبوت کی طرح امت کو اس جدوجہد کے لیے تیار کریں کہ پورے کے پورے اسلام کا عدم نفاذ بھی امت کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اس جدوجہد میں اتنی ہی شدت ہونی چاہیے کہ حکمرانوں کی ٹانگیں کانپنے لگیں اور وہ اسلام کے نفاذ کے لیے مجبور ہو جائیں۔ (تبصرے کے لیے اس نمبر پر میسج کریں: 03343438802)