سعودی قیادت کی خدمت میں چند گزارشات

274

ملک الطاف حسین

مملکت سعودی عربیہ کا وجود 1932 میں حجاز اور نجد کے ادغام کے نتیجے میں عمل میں آیا جس کی بنیاد شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن السعود نے رکھی اور ’’السعود‘‘ کی نسبت سے مملکت کا نام سعودی عرب رکھا گیا۔ عالم اسلام کے اس تیسرے بڑے ملک کا کل رقبہ 2149690 مربع کلو میٹر جب کہ 2014ء کے اعداد و شمار کے مطابق آبادی 2کروڑ 73 لاکھ 45 ہزار 9 سو 85 نفوس پر مشتمل ہے۔ سعودی عرب کے اطراف میں اردن‘ عراق‘ کویت‘ قطر‘ متحدہ عرب امارات‘ سلطنت اومان اور یمن ہیں جب کہ دنیا کا سب سے بڑا ریگستانی صحرا کا زیادہ حصہ بھی اس کی جغرافیائی حدود میں واقع ہے۔ سعودی عرب دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ خام تیل پیدا کرنے والا ملک ہے جب کہ سعودی عرب کی سب سے بڑی شان مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے دو حرم ہیں کہ جن کے وجود نے سعودی سرزمین کو مقدس سرزمین کا اعزاز بخشا ہے۔ دنیا کے تمام انسانوں کے لیے رشد و ہدایت کے سرچشمے قرآن کا نزول اور دین کی دعوت کی ابتدا بھی اس سرزمین سے ہوئی۔ خاتم النبین سید المرسلین رحمت اللعالمین سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی سرزمین پر آرام فرما ہیں۔ دنیا کا سب سے زیادہ پاکیزہ اور سب سے بڑا سالانہ اجتماع ’’حج بیت اللہ‘‘ بھی اسی سرزمین پر ہوتا ہے جب کہ ہر سال لاکھوں عمرہ زائرین کی آمد و رفت کا سلسلہ بھی سعوی عرب کی جانب جاری رہتا ہے۔



ہمیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ سعودی عرب اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ بین الاقوامی صورت حال‘ علاقائی تنازعات اور عرب دنیا کے داخلی اختلافات سمیت اسلام دشمن قوتوں کی سازشوں نے یقیناًسعودی قیادت کو نئے خطرات اور سنگین مسائل سے دوچار کر دیا ہے تاہم ان تمام چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے جس تدبر‘ بصیرت‘ تحمل اور برداشت کی ضرورت ہے اسے ہر حال میں موجود رہنا چاہیے کیوں کہ سعودی عرب کا دشمن یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح سے سعودی قیادت کو مشتعل کرکے اس سے ایسے فیصلے کروائے جائیں کہ جن کی وجہ سے ایک طرف سعودی فرمانروا کی عالم اسلام میں ’’سپریم قائد‘‘ کی حیثیت متاثر ہو اور دوسری جانب سعودی قیادت مجبور ہوجائے کہ وہ اپنی سلامتی اور دفاع کے لیے امریکا و دیگر مغربی ممالک پر انحصار کرنے لگے۔ ناٹو دہشت گردوں اور صلیبی قوتوں کا سعودی عرب کو ٹریپ کرنے کا ایجنڈا ایران‘ یمن اور قطر کے ساتھ سعودی اختلافات کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے حالاں کہ قطر‘ یمن اور ایران کے ساتھ دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کو قائم کرنے کے لیے کئی طرح کے آپشنز موجود تھے اور ہیں کہ جن کو یکے بعد دیگرے استعمال کرکے سعودی عرب کو اسلامی ممالک کے ساتھ تنازعات سے بچایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح سے عرب دنیا کی مقبول عوام جماعت اخوان المسلمون اور حماس کی تنظیم کے حوالے سے بھی ’’ریاض‘‘ کے فیصلوں میں مثبت تبدیلی لائی جاسکتی ہے بشرطیکہ سعودی قیادت امریکی دباؤ سے باہر آجائے۔ ویسے بھی اب اگر امریکا کے بعد اسرائیل کے ساتھ بھی سعودی عرب کے تعلقات قائم ہو جاتے ہیں تو اس کے بعد دوسری جانب مقبوضہ بیت المقدس اور آزاد فلسطین کے حوالے سے سعودی کردار پر سوالیہ نشان لگ جائے گا جب کہ یہ بات بھی طے ہے کہ سعودی عرب یا اس کی حکمران قیادت کی حفاظت یا سلامتی کا تعلق محض سعودی عرب کا داخلی معاملہ نہیں بلکہ اس کے لیے عالم اسلام کی ’’ریاض‘‘ کو حمایت و تائید کا حاصل ہونا یا رہنا انتہائی ضروری ہے۔ سعودی عرب کی ایک شان یہ بھی ہے کہ وہ اسلامی ممالک کے تنازعات اور بیرونی جارحیت کی صورت میں کبھی غیر جانبدار نہیں رہا بلکہ ہمیشہ منصفانہ اور جرأت مندانہ موقف کے ساتھ سامنے آیا مگر حالیہ دنوں میں سعودی پالیسی مایوس کن رہی کیوں کہ برما کے روہنگیا مسلمانوں کے لیے بروقت آواز اٹھانے اور مؤثر اقدامات کرنے میں ’’ریاض‘‘ ناکام رہا جب کہ تمام عالمی اداروں سے پہلے مسلم ممالک کے اہم رہنماؤں کا مظلوم روہنگیا مسلمانوں کی مدد و حفاظت کے لیے شاہ سلیمان کی میزبانی اور صدارت میں فوری اجلاس ہونا چاہیے تھا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا



البتہ سعودی وزیر خارجہ وعادل الجبیر نے تاخیر کے ساتھ 24 ستمبر کو جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم بند کرنے اور آزاد فلسطین کے قیام کا مطالبہ ضرور کیا مگر اس مطالبے کے ساتھ بھی کوئی ’’وارننگ‘‘ شامل نہیں تھی اسی طرح سے یہ بات بھی افسوس کا باعث ہے کہ سعودی وزیر خارجہ نے اپنے مذکورہ خطاب میں مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کا کوئی ذکر نہیں کیا اور سعودی عرب کا وہ دیرینہ موقف نہیں دہرایا کہ ’’مسئلہ کشمیر‘‘ کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ قراردادوں پر عمل درآمد کیا جائے۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی حیران کن ہے کہ وزیر خارجہ سے پہلے امام حج نے بھی ’’خطبۂ حج‘‘ کے دوران مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی مظلومیت اور محکومیت کا کوئی ذکر نہیں کیا حالاں کہ اس سے پہلے تمام ائمہ کرام خطبہ حج میں مقبوضہ کشمیر اور مقبوضہ فلسطین کا ایک ساتھ ذکر کیا کرتے تھے، جب کہ امام حج نے اس مرتبہ بیت المقدس کی آزادی کے لیے بھی محض دعا کرنا ہی کافی سمجھا حالاں کہ بیت المقدس کی آزادی کے لیے دعا سے کہیں زیادہ ’’جہاد‘‘ کی ضرورت ہے کیوں کہ اگر صرف دعاؤں سے بیت المقدس آزد ہوتا تو پھر سیدنا عمر فاروقؓ اور سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے لشکروں کو بیت المقدس کے دروازے پر دستک دینے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ اسی طرح سے ہم یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ پاکستان کی مسلح افواج اور عوام تو سعودی عرب کی سلامتی اور دفاع کے لیے ہمہ وقت چوکس اور اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے کے لیے تیار رہتے ہیں لیکن امریکی صدر ٹرمپ نے نئی افغان پالیسی کا اعلان کرتے وقت جب پاکستان کو دھمکیاں دیں تو اس کے ردعمل میں بیجنگ‘ تہران اور ماسکو سے تو بیان آگئے مگر ہمیں جان سے زیادہ عزیز اور انتہائی محترم و شفیق شاہ سلیمان یا ان کے ولی عہد محمد بن سلیمان السعود کی جانب سے صدر ٹرمپ کی افغان پالیسی کی مذمت اور پاکستان سے اظہار یکجہتی کے لیے کوئی بیان نہیں آیا۔



ہم یہاں انتہائی احترام کے ساتھ سعودی قیادت کی توجہ اس جانب بھی مبذول کرانا چاہیں گے کہ سعودی عرب کے حالیہ قومی دن پر سعودی عرب میں خوشیاں منانے کے لیے جس طرح کی اجازت اور آزادی دی گئی کہ جس کا سوشل میڈیا پر بہت چرچا ہے تو کیا یہ مناظر اور خبریں کہ جن میں سے بیش تر کا تعلق دارالحکومت ریاض کنگ فہد انٹرنیشنل اسٹیڈیم میں ہونے والی مختلف تقریبات سے ہے سعودی مملکت کے عقیدے ’’توحید الٰہی‘‘ سے مطابقت رکھتے ہیں‘ کیا دین اسلام کی حدود و قیود سے تجاوز کرنے کی کوئی جسارت کی جارہی ہے‘ سعودی عرب کہ جس کی ’’بادشاہت‘‘ پر تو بحث ہو سکتی ہے مگر اس کے داخلی نظام میں شریعت اسلامی کے نفاذ اور بالادستی و احترام کے حوالے سے کوئی دو رائے نہیں‘ تمام عالمِ اسلام سعودی عرب میں قرآن و سنت کے قوانین کی موجودگی پر خوشی و اطمینان محسوس کرتا ہے۔ سعودی عرب کو تمام دنیا کے انسانوں کے لیے ’’رول ماڈل‘‘ کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے تو کیا مغرب میں بیٹھے شیطان کے پیروکاروں نے سعودی عرب کے ’’اسلامی تعارف‘‘ کو مرحلہ وار نقصان پہنچانا شروع کردیا ہے؟ اگر ایسا ہو رہا ہے تو بہت غلط ہو رہا ہے کیوں کہ اسلامی شریعت کو اس کی اصل روح کے ساتھ قائم رکھنا اور نافذ کرنا سعودی قیادت کا کوئی احسان نہیں بلکہ یہ اس مقدس سرزمین کے اپنے تقاضے اور ماحول ہے کہ جہاں غارِ حرا سے غار ثور تک اور میدان بدر سے میدان احد تک کے تمام پہاڑ اور صحرا بھی یہ گواہی دے رہے ہیں کہ یہاں پر جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پاک ہی نافذ رہے گی۔ موتہ سے یرموک تک اور خیبر سے کربلا تک کی تاریخ کو بدلا نہیں جاسکتا اور نہ ہی ان راستوں کو مٹایا جاسکتا ہے کہ جہاں سے کبھی خلفائے راشدین اور صحابہ کرامؓ اسلام کا پرچم اٹھائے گزرے تھے کہ خود سعودی عرب کے جھنڈے پر بھی کلمہ طیبہ لا الٰہ الاللہ محمد رسول اللہ‘‘ لکھا ہے۔
امید ہے کہ سعودی قیادت اپنے جھنڈے کو دیکھتے ہوئے سعودی کے داخلی ماحول اور عالمِ اسلام کے لیے اپنے کردار پر ازسرنو غور کرے گی۔ ہم سعودی قیادت کی خیریت اور عالم اسلام کی عافیت کے لیے دعا گو ہیں۔ اللہ رب العزت ہم سب کی مدد و رہنمائی فرمائے‘ آمین‘ ثم آمین۔