’’جمہوریت یا موروثیت‘‘

185

پروفیسر رشید احمد انگوی
پاکستان انسانی تاریخ کا عجوبہ ہے کہ روئے زمین پر بسنے والے کلمہ گو مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ کلمہ توحید کی بنیاد پر برصغیر پاک وہند کے جغرافیہ میں اسلامیانِ عالم کے قلعے کے طور پر ایک ریاست وجود پزیر ہو اور مفکرِ پاکستان علامہ اقبال کی تعلیمات اور بابائے قوم قائد اعظم کی راہ نمائی میں خوابوں کی یہ سرزمین حاصل کرلی گئی۔ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے قیامِ پاکستان کے اغراض ومقاصد کی روشنی میں قرادادِ مقاصد پاس کرکے ہمیشہ کے لیے راہ نما خطوط مہیا کردیے اور ربع صدی بعد ذوالفقار علی بھٹو نے انیس سو تہتر کا متفقہ دستور پاس کراکر قومی ترقی کے لیے راستہ ہموار کردیا مگر اگلے انتخابات میں بھٹو کی دھاندلی نے ترقی کا راستہ روک دیا اور ضیائی آمریت بنام اسلام کا دور شروع ہوگیا۔ اس دور میں پنجاب کے گورنر جیلانی نے ایک بڑا قومی جرم یہ کیا کہ لوہے کے ایک تاجر سے ذاتی مفادات حاصل کرکے اس کے بیٹے کو پنجاب کی وزارت کی کرسی پر بٹھا دیا۔ بظاہر یہ ایک سادہ سی بات اپنے اندر قومی تباہی کا ایٹم بم لیے ہوئے تھی۔ سیاست کی ابجد سے بھی بے خبر یہ نااہل صاحب زادہ اپنے تاجرانہ پس منظر میں لفافہ کلچر، سازش اورضمیروں کی خرید وفروخت کی منڈی سجا کر آگے بڑھتا رہا تاوقتیکہ کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے نااہل قرار پا کر آج اندرون وبیرون ملک اس عظیم عدالت اور اس کے عظیم ججوں نیز اپنے محسن جیلانی کی ہم پیشہ افواجِ پاکستان کے خلاف نفرت وبغاوت کی ناپاک سرگرمی میں مگن ہے اور اس کے ساتھ قومی خزانے پر پلنے والے ہم نواؤں کا ٹولہ بھی ہے۔ پارلیمنٹ اپنے حقیقی مقام کو چھوڑ کر اسے نوازنے میں لگی ہوئی ہے بلکہ ہماری رائے میں تو پارلیمنٹ عملاً ’’جیلانی ہاؤس‘‘ کا درجہ اختیار کرچکی ہے کہ جیلانی کی مٹھی گرم کرکے نیز اس کی خوش نودی حاصل کرکے چور دروازے سے ناجائز طور پر کابینہ میں شامل ہونے والا فرد آج پارلیمنٹ میں فروکش مجرموں سے لیڈری کا تمغا اور خصوصی ترمیمی فضائل وفوائد حاصل کرنے میں لگا ہوا ہے۔



یہ سوچ کر بھی شرم محسوس ہوتی ہے کہ جیلانی کے ہاتھوں چھتیس سال قبل پلانٹ کیا گیا نام نہاد سیاست دان ابھی تک قوم کی جان چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ استغفراللہ۔ ادھر بھٹو کے انجام کے بعد اس کی بیٹی کو اقتدار ملا یوں بھٹو کا قرض ووٹروں نے اتار دیا مگر اب اس مرحومہ کے سسرال نے اپنا نام بدل کر مجاوری کا نیا باب کھول دیا اور شوہر صاحب نے ’’آئینی تحفظ‘‘ کی پناہ میں پانچ سال پورے بھی کرلیے مگر اب چاہتے ہیں کہ میری نسل نئے سرے سے اقتدار میں آجائے کہ میرا بیٹا بھٹو کا نواسا ہی تو ہے۔ (تاریخ پوچھتی ہے کہ بھٹو کا کوئی پوتا پوتی بھی ہیں یا نہیں)۔ اسی دوران جیلانی کا شاہ کار اپنی بیٹی کو ملک کا سربراہ بنانے پر بھی تلا ہوا ہے۔ یہ ہے وہ پس منظرجس میں قوم کو متوجہ کیا جاتا ہے کہ کیا مملکت خداد پاکستان کو ’’اسلامیہ جمہوریہ پاکستان‘‘ کے طور پر رہنا ہے یا ’’موروثیہ، شریفیہ، زرداریہ پاکستان‘‘ کے طور پر۔
تحریک پاکستان کی حقیقتوں سے باخبر اہل علم، اہلِ سیاست، اہلِ صحافت، اہلِ خطابت، اہلِ قلم سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ اس مملکت اور اس کے بائیس کروڑ انسانوں پر رحم کریں اور پرزور آواز اٹھائیں۔ کیا قائد اعظم نے یہ عظیم ریاست ’’نواز ومریم وبلال وزرداری جیسوں کو راہ نما بنانے کے لیے قائم کی تھی‘‘۔ ان تمام کا ریاست کے مقصد وجود سے کیا تعلق۔ ’’اسلامیہ جمہوریہ پاکستان‘‘ کے کس معیار پر یہ لوگ پورا اترتے ہیں۔ ہماری رائے میں تو ن لیگ کو ج لیگ (بحوالہ جنرل جیلانی) کہنا زیادہ موزوں ہے۔
بھٹوکی بیٹی صنم بھٹو آج بھی ماشاء اللہ زندہ اور بھٹو کی نشانی ہے۔ اسی طرح ذوالفقار جونیئر اور فاطمہ بھٹو ہی بھٹو کے پوتے پوتیاں ہیں۔ ویسے بھی جمہوریت تو نئے سے نئے منتخب قائدین کے آتے رہنے کا نام ہے۔ ریاست پر پکے ڈیرے تو بادشاہی نظام میں لگائے جاتے ہیں۔



جمہوریت میں ہرگز ہرگز نہیں۔ سیاست میں کرپشن کے حوالے سے نواز وزرداری نے تو انتہائی مہلک اور تباہ کن ’’وراثتی کینسر‘‘ کو جنم دیا ہے۔ آخر بائیس کروڑ انسانوں کو سیاسی قیادت سے محروم کرکے خاندانِ شریفاں اور زرداری خاندان کی ابدی غلامی کا جواز کہاں سے آگیا۔ زرداری میاں بیوی نے کم وبیش دس سال تک بھٹو کے نام پر حکومتیں کرلیں اور دنیا جہاں میں جائداد کے پہاڑ بنا لیے۔ یہی حال جیلانی کے پودے نواز شریف کا ہے کہ شریف خاندان نے پورے ملک خصوصاً پنجاب پر حکمرانی کے ادوار بسر کرلیے۔ اب آرام فرمائیں اور ’’غیر شریف‘‘ خاندانوں کو بھی سامنے آنے دیں۔ آپ فرماتے ہیں ’مجھے نکالا کیوں‘ کیا قائد اعظم نے جنرل جیلانی کے نام ریاست لکھ دی تھی کہ اپنے کسی خدمت گار کو آنے والے زمانوں کی حکمرانی بخش دے۔
لاہور میں اسمبلی ہال کے سامنے بلند وبالا سفید مینار پاکستان کی عالم اسلام میں اہمیت ظاہر کرتا ہے۔ ہمارے حالیہ ’’اینگلو پاکستانی‘‘ حکمرانوں کو تو سال بعد ’یومِ اقبال‘ کے حوالے سے ہونے والی سرگرمی بھی اچھی نہ لگی اور انہوں نے یوم اقبال منانے کو قانونی جرم قرار دے دیا تاکہ ذکرِ اقبال کے حوالے سے قیام پاکستان کی اصل وجوہ اور فکرِ اقبال کے مطالبات لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہیں۔ اسی لیے پوری قوم سے درد مندانہ اپیل کی جاتی ہے کہ آئیں وطن عزیز پاکستان کو چور، ڈاکو، بددیانت قسم کی قیادتوں سے نجات دلائیں۔ زرداری کا لفظ اپنی تشریح خود کردیتا ہے۔ اسی طرح ’’سارے ٹبر‘‘ والے نعرے فضاؤں میں گونج رہے ہیں اور ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا نغمہ قومی تمسخر کی علامت ہے جسے سنا کر لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔ اگر امریکا برطانیہ کے حکمران چار یا آٹھ سال کے لیے آتے ہیں اور ماضی میں گم ہوجاتے ہیں تو پاکستانی حکمران خاندان چالیس چالیس سال پر بھی کیوں راضی نہیں ہوتے اور بلاولوں و مریموں کو ملک کی قیادت کے لیے پیدا ہونے والے وجود کیوں قرار دیتے ہیں۔ ہم اس باطل تصور کو نہیں مانتے اور اس کے پرخچے اڑانے کو ملک سے وفاداری کا تقاضا سمجھتے ہیں۔ ’’یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے۔ صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ‘‘۔ جی ہاں اغراض کے بندوں نے نواز وزرداری کو بھی دیوتا بنا ڈالا ہے۔ کیا حالیہ ترمیمی سرگرمیاں بھی نوازپرستوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں؟