۔20کروڑ افراد کے لیے صرف 3سو ماہر نفسیات ہیں‘ ڈاکٹر مبین اختر

880

۔ ۔ اے اے سید ۔ ۔ 

سرکاری معالج نہ ہونے کے برابر ہیں‘ ذہنی بیماری اور نفسیاتی مسائل میں فرق سمجھنا چاہیے
بچوں میں اعتماد کا انحصار اچھی تربیت پر ہے‘ وہم اور شک بیماری نہیں، علامات ہیں

 شہر کے معروف ’’کراچی نفسیاتی اسپتال‘‘ کے منتظم اعلیٰ سے تفصیلی بات چیت

صحت مند ذہن کسی بھی معاشرے کی سماجی، سائنسی اور معاشی ترقی کی ضمانت ہوتا ہے۔پاکستان میں اندازاً تین کروڑ افراد کسی نا کسی نوعیت کے نفسیاتی مرض میں مبتلا ہیں لیکن ان کے علاج کے لیے صرف 450 ماہرین نفسیات ہیں جب کہ تمام سرکاری اسپتالوں میں ایسے مریضوں کے لیے محض 2200 بستر مختص ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی کے مقابلے میں سائنس‘ طب اور نفسیات نے اتنی ترقی کی ہے کہ اب ہم ذہنی امراض اور نفسیاتی مسائل کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں اور ان کا سائنسی بنیادوں پر علاج بھی کرنے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے ،کیونکہ جوں جوں سائنس‘ طب اور نفسیات ترقی کر رہے ہیں توں توں جسمانی بیماریوں کی طرح ذہنی بیماریوں کی بھی بہتر تشخیص اور بہتر علاج ہورہا ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ ذہنی امراض اور نفسیاتی مسائل کے کامیاب علاج انسانوں کے لیے سائنس‘ طب اور نفسیات کے قیمتی تحفے ہیں تو غلط نہ ہوگا ۔اس پس منظر کے ساتھ ذہنی امراض اور نفسیاتی بیماریاں کیوں پیدا ہوتی ہیں؟ ان کی تشخیص اور علاج کس طرح ممکن ہے؟ پاکستان میں علاج کی کیا صورتحال ہے؟ معلوم کرنے کے لیے کراچی کے معروف نفسیاتی اسپتال ’’کراچی نفسیاتی اسپتال‘‘کے منتظم اعلیٰ ڈاکٹر مبین اختر سے تفصیلی گفتگو کی ہے۔
ڈاکٹر مبین اختر ماہر نفسیات ہیں، بلند شہر کے قصبے سکندرآباد میں 1937ء میں پیدا ہوئے۔تیس سال لاہور میں رہے،گورنمنٹ کالج سے ایچ ایس سی کیا۔ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔ وہیں پریکٹس اور ہاؤس جاب کی، پھر 1962ء میں امریکا چلے گئے۔ وہاں سے نفسیات میں اسپیشلائزیشن کیا۔ لیکن امریکا کے حالات دیکھتے ہوئے کہ اُس معاشرے میں بچوں کی تربیت ممکن نہیں۔ 69 19ء میں کراچی آگئے۔ کراچی میں پریکٹیس شروع کی ،ابتداء میںبقائی اسپتال میں کلینک کیا، پھر چھوٹا سا گھر لے کر اسپتال شروع کیا اور آج’’ کراچی نفسیاتی اسپتال‘‘ کی پانچ سے زیادہ شاخیں موجود ہیں۔
سوال: ذرا ہمیں سب سے پہلے یہ بتائیے کہ جس زمانے میں آپ نے پریکٹس شروع کی اُس وقت ذہنی و نفسیاتی بیماری اور اس کی تشخیص و علاج کی کیا صورت حال تھی۔؟

ڈاکٹر مبین اختر: اُس وقت پورے پاکستان میں کوئی پچیس تیس ماہر نفسیات تھے، ابھی بھی تین چار سو سے زیادہ نہیں ہیں۔ کراچی میں بھی اس وقت دو چار ہی تھے ،وہ گورنمنٹ اسپتال اور کالج میں تھے۔ زیادہ تر لوگ پیر فقیر اور عامل لوگوں کے پاس جاتے تھے۔جب میں واپس آیا تھا تو میرے ایک دوست کہنے لگے کہ پہلے آجاتے تو میرا ایک خالہ زاد بھائی تھا اس کو دکھاتا، میں نے پوچھا کیوں کیا ہوا؟ کہنے لگا یہاں ٹھٹھہ میں کوئی پیر صاحب تھے وہ علاج کرتے تھے۔ اس کو بھی ذہنی مرض ہوگیا تھا۔ سکھر کے قریب قبرستان تھا وہاں کسی پیر صاحب کی قبر تھی۔ وہاں لوگوں نے زنجیر باندھ کر مریض رکھے ہوئے تھے زیادہ تر کے پیروں میں زنجیر ہوتی تھی یا درختوں سے باندھ دیتے تھے ،ان میں مرد، عورت، بچے سبھی تھے، میں وہاںگیا میں سمجھا عقیدت ہے بزرگ کی۔ ایک عورت کے ساتھ جوان مریض تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ تم اس کو یہاں کیوں لے کر آئی ہو؟ مجھ سے اس نے پوچھا کہاں لے کر جاؤں۔ اُس وقت حیدرآبادمیں گدو بندر تھامیں نے کہا گدوبندر (دماغی اسپتال) لے کر جاتیں، اس نے کہا وہ تو کچھ دیر رکھتے ہیں پھر چھوڑ دیتے ہیں۔ گھر جاکر یہ ایک ایک چیز توڑ دیتا ہے ،میں نے کہا کہ یہ تو واقعی مسئلہ ہے ۔ امریکا میں ہم نے دماغی امراض کے علاج کے ساتھ انتظامی نفسیات بھی پڑھی تھی۔ مریضوں میں ان پڑھ ہی نہیں پڑھے لکھے لوگ بھی ہیںجو پیر فقیر کے پاس جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں قرآن ہی تو پڑھتے ہیں تعویز میں بھی قرآن ہی لکھا ہوتا ہے۔ ہمارے لوگوں کی سوچ منطقی اور سائنسی نہیں ہے۔ خواہ وہ مذہبی ہوں یا غیر مذہبی،آج بھی لوگ پہلے وہاں سے چکر لگا کر آتے ہیں۔

سوال:ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر جگہ چار میں سے ایک شخص ذہنی بیماری میں مبتلا ہے چاہے وہ غریب ہو یا امیر، جوان ہو یا بوڑھا۔ ہر معاشرے اور نسل کے لوگ اس کی زد میں ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ذہنی امراض، دل کی بیماریوں سے زیادہ پیچیدہ اور کینسر سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ کیا یہ بات ٹھیک ہے؟ آخر یہ مرض کیا ہے؟ ذہنی مریض کس کو کہا جاتا ہے؟
ڈاکٹر مبین اختر: جی ہاں! ذہنی مریض کس کو کہتے ہیں اس پر بعد میں بات کریں گے کیوں ہوتا ہے یہ زیادہ اہم سوال ہے۔ لوگ ایسے کیوں ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ آپ سے یا اپنے مریض سے کہوں کہ مجھے پتا نہیں کہ یہ کیوں ہوتا ہے تو وہ کہے گا کہ یہ کیا علاج کرے گا، اسے تو پتا ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تھیوریاں تو بہت ہیں مگر اصل وجہ نہیں معلوم ہوتی۔ جب اصل وجہ پتا چلتی ہے تو پھر مریض نفسیاتی بیماری میں نہیں رہتا، دماغ میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے،وہ ہارمون کی خرابی ہو چاہے ٹشو کی خرابی ہو۔ اگر سرجری کی ہے تو نیورو سرجن کے پاس چلا جائے گا۔ اگر کسی اور آرگن کی خرابی ہے تو وہ اسی طرف چلا جائے گا جیسے آج کل ایڈز ہے ،آج تک ڈاکٹروں کو پتا ہی نہیں تھا کہ یہ برین کی سلی ہیں۔ انفیکشن کی وجہ سے ہوتے ہیں نفسیات سے بہت ملتی جلتی تھی تو اس کا ماہر نفسیات علاج کرتے تھے۔ جس دن پتا چلا کہ یہ تو انفیکشن ہے تو وہ ماہر نفسیات کے پاس نہیں جاتے نیورو لوجسٹ اور نیورو فزیشن کے پاس چلے جاتے ہیں۔ ایک زمانے میں بھوت پریت اور جن تھے ابھی بھی کہیں نہ کہیں ایسی بات سننے کو ملتی ہے۔ پھر ایک دور آیا نفسیات (psychology) کا اس نے ایک بہت بڑا فریم ورک کھڑا کر دیا۔ مگر بنیادی طور پر وہ یہ کہتا تھا کہ جب پریشانی حد سے بڑھ جاتی ہے تو ذہنی بیماری ہو جاتی ہے۔ ایک دور فرائیڈ کا بھی آیا اس کے بعد دور یہ آیا کہ دماغ میں کیمیکل ہوتے ہیں ان میں کمی بیشی ہو جاتی ہے۔ آج کل یہی دور چل رہا ہے۔ یہ کیسے پتا چلا؟ مجھے تو نہیں معلوم کہ انہیں یہ کیسے پتا چلا یہ تھیوری ہے تھیوری کے لیے ضروری نہیں کہ آپ ثبوت دیں۔ کسی بیماری کی وجہ معلوم نہ ہوتو ایک فارمولا ہے کہ یہ سماجی نفسیاتی (psycho social ) حیاتیات (biological ) کی وجہ سے ہوتی ہے ساری چیزیں آگئیںاصل بات یہ ہے کہ ہمیں معلوم نہیں ہے کہ یہ کیوں بیمار ہوتا ہے؟ آپ حیران ہوں گے کہ جب وجہ نہیں پتا تو علاج کیسے ہوگا۔آپ سمجھیں کہ گاڑی میں ڈینٹ پڑ جاتے ہیں ڈینٹ کو ٹھیک کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ کہاں ڈینٹ پڑا تھا اور کیسے پڑا تھا بس ڈینٹ دیکھ کر ٹھونک پیٹ کر صحیح کر لیتے ہیں۔ جیسے ملیریا تھا۔ میل، ایریا۔ عام طور پر جہاں گندگی وغیرہ ہوتی تھی ملیریا کا ان علاقوں سے تعلق ہوتا تھا جہاں گندی ہوا اور گندا ماحول پایا جاتا تھا کسی کو پتا نہیں تھا کہ مچھرہوتے ہیں جو کاٹ لیتے ہیں تو اس سے یہ بیماری ہوتی ہے۔ تجرباتی طورپر دیکھا کہ یہ ایک (cinchona tree)خاص درخت ہے جس کی چھال اگر کوئی کھالے تو ملیریا ٹھیک ہو جاتا ہے۔ نہ یہ پتا کیسے ہوتا ہے، نہ یہ پتا کہ یہ ہوتاکیا ہے مگر انہوں نے دریافت کرلیا۔ اس کو تجرباتی دوا (empirical medicine) کہتے ہیں۔ جب موازنہ کرنا شروع کیا دس کو (cinchona) سنکونا دیا، دس کو کچھ نہیں دیا، کہتے ہیں کہ نفسیاتی اثر بھی تو ہوتا ہے یعنی اگر آپ دوائی نہ دیں اور دس کو شکر کی گولیاں ہی دیں توان کو پتا ہوگا کہ دوائی دی جارہی ہے وہ بغیر دوا کے ٹھیک ہو جائیں گے۔ نفسیاتی اثر کی وجہ سے اس کو کلاسیفائیڈ ایفیکٹ بھی کہتے ہیں۔ اس طریقے سے یہ نکلا کہ جب ہم کسی کو سنکوناز دے رہے ہیں تو دوسرے کو بھی سرخ گولی بنا کردیں اور مریض کو پتا نہیں ہونا چاہیے کہ کس میں دوائی ہے اور کس میں دوائی نہیں ہے۔



بلکہ دینے والے کو بھی نہیں پتا ہونا چاہیے اس کو Double blind study (ڈبل بلائنڈ اسٹڈی) کہتے ہیں۔ ماڈرن میڈیسن کا دارو مدار ڈبل بلائنڈ اسٹڈی پر ہے۔ جو علاج کارگر ہے وہ اس کے ذریعے سے جب تک ٹیسٹ نہیں ہوگا ہم استعمال نہیں کریں گے۔ یہ اہم ہے لوگ اس کو سمجھتے نہیں ہیں۔ جس سے90 فی صد لوگ ٹھیک ہو جاتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ 90 فی صد لوگوں کو آپ نے کوئی دوا دی ہے تو موثر ہے ایک یا دو مریضوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا ڈبل بلائنڈ تقابل سے جب تک آپ ثابت نہیں کریں گے آپ نہیں کہہ سکتے کہ یہ دوا موثر ہے۔ اس کا ایک اور پہلو ہے کہ مضر اثرات (side effects) بھی زیادہ نہیں ہونے چاہییں۔ اس کو بھی ٹیسٹ کرتے ہیں جب ان دونوں چیزوں کو ٹیسٹ کر لیتے ہیں تو ماڈرن میڈیسن استعمال کرتے ہیں۔
سوال:ڈاکٹر صاحب یہ تو ہم جانتے ہیں کہ انسانی جسم میں دماغ کی حیثیت ایک ’’کنٹرول روم‘‘ کی ہوتی ہے۔آپ کی گفتگو کا حاصل بھی یہ ہے کہ اگر کنٹرول روم یعنی دماغ کی کارکردگی درست نہیں تو انسانی زندگی کا تمام نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ کوئی شخص نفسیاتی بیماری کا شکارہے یا اس کے دماغ کے کچھ خاصکیمیکل کم ہوگئے ہیں؟
ڈاکٹر مبین اختر: نیو رو لوجی میں ٹھوس ثبوت ہوتا ہے دماغ میں ٹیومر ہوگا، خون جما ہوگا، دماغ کے fluid (سیال) چیک کرتے ہیں ان میں کمی بیشی ہوگی۔ اس میں یقینی ثبوت ہوگا کہ یہ چیزیں ہیں، تب آپ کہتے ہیں کہ نیورو لوجی کا مریض ہے اور اگر ٹیومر ہے تو نیورو سرجن کا مریض ہو جاتا ہے، سرجری سے نکالا جائے گا، اس کی علامات ایک جیسی بھی ہوتی ہیں، اس لیے تینوں کو مین سبجیکٹ کے ساتھ تھوڑا تھوڑا دوسرا سبجیکٹ بھی پڑھایا جاتا ہے۔ جیسے میں نے نفسیات پڑھی تو ساتھ میں کچھ نیورو لوجی اور نیورو سرجری بھی پڑھی۔ ایسے ہی نیورو لوجی پڑھنے والا نفسیات اور نیورو سرجری بھی پڑھے گا۔
سوال: پاکستان میں ذہنی اور نفسیاتی بیماری اور اس کے علاج کی کیا صورت حال ہے؟
ڈاکٹر مبین اختر: 20 کروڑ کی آبادی میں تین چار سو ماہر نفسیات ہیں اس سے تناسب کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جو ہیں وہ پرائیویٹ ہیں۔ سرکاری معالج تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کراچی جو سب سے بڑا شہر ہے اس کے جناح اسپتال میں دس بیس بستر ہوں گے، سول میں دس بیس بستر ہوں گے۔ عباسی میں پانچ دس ہوں گے۔ کچھ پی این ایس شفا میں ہوں گے یعنی کل پچاس بستر بھی نہیں ہیں۔ 25 فی صد لوگ بیمار ہوتے ہیں، ایک فی صد آبادی تو اتنی بیمار ہے کہ اس کو اسپتال میں داخل کرکے علاج ہونا چاہیے۔ حساب لگائیں کراچی کی دو کروڑ آبادی کا ایک فی صد کتنا بنتا ہے۔ اور ہمارے اسپتال کتنے ہیں؟۔
سوال: مغربی ممالک میں ذہنی نفسیاتی بیماری کی صورت حال اور پاکستان یا ایشیائی ممالک کی صورت کا موازنہ کسی طرح کریں گے؟
ڈاکٹر مبین اختر: عجیب بات یہ کہ جہاں بھی سروے ہوا ہے۔ تناسب وہی نکلا ہے۔ 25 فی صد نفسیاتی بیمار ہیں۔ ہمارے ہاں سروے میں بھی25 فی صد ہی نکلا ہے۔
سوال: آج دیکھا جائے تو ہر دوسرا نوجوان کسی نہ کسی ذہنی الجھن کا شکار ہے آپ ہمیں یہ بتائیے کہ نوجوانوں کی ذہنی صورتحال کو آپ کس طرح سے دیکھ رہے ہیں۔ کس طرح کے مریض نوجوان عموماً آپ کے پاس آتے ہیں؟
ڈاکٹر مبین اختر: ذہنی بیماری اور نفسیاتی مسائل میں فرق کریں۔ اس میں فرق یہ ہے کہ ذہنی مسائل کا مطلب ہے کہ نفسیاتی مسائل کے آغاز کا سبب پریشانیاں تو سو فی صد لوگوں کو ہیں۔ پانی نہیں آرہا، بجلی نہیں مل رہی، ملازمت نہیں ہے، پریشانی ہی پریشانی ہے۔ سب پریشان ہیں مگر 25 فی صد کو اتنی زیادہ پریشانی ہے کہ وہ فعال (functional) نہیں ہم فعال ہیں آپ اپنے کام پر جا رہے ہیں میں اپنا کام کرتا ہوں اس کے باوجود کہ پریشانی مجھے بھی ہے مگر میں اپنا کام کاج کر لیتا ہوں۔ نفسیاتی مرض بنیادی طور پر یہ ہے کہ اتنی پریشانی ہوتی ہے کہ مریض اپنا کام کاج نہیں کر پاتا۔ یہ پریشانیاں کوئی بہتر حکومت ہو تو دور ہو جاتی ہیں۔ لیکن نفسیاتی مرض ایسا ہے کہ مریض نہ تو صبح اٹھ پاتا ہے، نہ نیند آتی ہے، کپڑے صحیح پہن سکتا ہے، نہ بھوک لگتی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ خود کو مار لوں، آوازیں آتی ہیں۔ اس کو ہم نفسیاتی مرض کہتے ہیں۔
سوال: تھوڑی بہت پریشانی کا شکار تو ہر دوسرا شخص ہے، یہ بھی نفسیاتی بیماری کا حصہ ہے ؟
ڈاکٹر مبین اختر: دیکھیں اب ہم نے اس کو الگ کر دیا کہ معاشرتی، معاشی، نفسیاتی مسائل ایک طرف ہوگئے اور نفسیاتی مرض الگ ہوگیا۔ نفسیاتی مرض کئی قسم کے ہوتے ہیں ان میں ایک ڈپریشن ہے جو سب پر حاوی ہے۔ ڈپریشن کا مسئلہ یہ ہے کہ لفظ ڈپریشن سے دکھ کا تصور ذہن میں آتا ہے دکھ اور غم بھی ہوتا ہے، لیکن اور بھی علامات ہوتی ہیں۔ ڈپریشن میں غم ہوتا، جو نظر نہیں آتا اندر ہوتا ہے۔ نیند نہیں آتی، یا بہت آتی ہے، بھوک نہیں لگتی، جسم میں درد ہوتا ہے، پیٹ میں درد ہوتا ہے، مرنے کا جی چاہتا ہے، خودکشی کا خیال آتا ہے، سب سے زیادہ خودکشیاں ڈپریشن کی وجہ سے ہوتی ہیں، لوگ کہتے ہیں کہ نوکری چھوٹ گئی تھی، بیوی سے لڑائی ہوگئی تھی، کچھ نہیں تین بیماریاں ہیں جن کی وجہ سے خودکشی زیادہ ہوتی ہے۔ ایک depression، دوسرا schizophrenia، تیسری addiction یعنی نشہ، ڈپریشن میں جب تک بڑی علامات نہیں ہوں گی ہم اس کو ڈپریشن نہیں کہیں گے۔ نوکری چھٹنے کا ڈپریشن مرض نہیں ہوتا۔ اگر کسی نے نوکری چھٹنے کے بعد خودکشی کی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بیماری بھی تھی۔
سوال:حال ہی میں خود کش گیم بلووہیل کا بہت شور مچا جس میں مبینہ خودکشی کے کیس بھی رپورٹ ہوئے ۔آپ اس کو کس طرح سے دیکھتے ہیں، کیا اس طرح کسی کے کہنے پر مرحلہ وار کوئی خودکشی کی طرف جاسکتا ہے؟
ڈاکٹر مبین اختر: اس پر ابھی تک بہت زیادہ تحقیق نہیںہوئی ہے۔ میں نے اخباروں ہی میں پڑھا ہے کہ لوگوں نے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا ہے۔ خودکشی کا واقعہ تو نہیں آیا اپنے آپ کو کاٹنے، جلانے کی حد تک آیا ہے۔
سوال: یہ ایسا ممکن ہے کہ کوئی اس حد تک کسی کی ہدایت پر عمل کرے؟
ڈاکٹر مبین اختر: ہاں لگتا تو ناقابل یقین ہے، میں نے کہا ناں کہ ابھی تک اس کی تحقیق سامنے آئی نہیں ہے۔ حتمی طور پر کوئی بات نہیں کہی جاسکتی۔
سوال:آج کے دور میںان ذہنی و جسمانی بیماریوں سے بچنا کیسے ممکن ہے؟
ڈاکٹر مبین اختر: آپ بات کررہے ہیں احتیاطی تدابیر (Prevention) اور علاج کی۔ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ نفسیاتی مرض میں احتیاطی تدابیر کے امکانات ابھی بہت زیادہ سامنے نہیں آئے تھوڑے بہت ہیں۔ مثلاً بچوں کی تربیت اس طرح کریں ان میں اعتماد آجائے، مارپیٹ نہ کریں، خوف سے متاثر نہ ہوں، ماؤں کو حمل کے دوران کھانے کو صحیح ملے، تاکہ پیٹ میں بچے کا دماغ متاثر نہ ہو، ڈیلیوری صحیح وقت پر ہو تو دماغ میں زخم نہ ہو، پریشانیاں کچھ کم ہوں، احتیاط کی حد تک تو یہ ہے۔کچھ ٹیسٹ ہوتے ہیں پیدائش پر ان سے ذہنی امراض کا اندازہ ہوتا ہے۔ بہت بڑا حصہ نہیں ہے۔ اصل احتیاطی تدابیر (Prevention) یہ ہے کہ جتنی جلدی علاج شروع ہوجائے اتنا بہتر ہے۔ پھر یہ کہ علاج باقاعدہ ہونا چاہیے اور جب تک ضرورت ہو اس وقت تک ہونا چاہیے۔کب تک دوا کھانی ہے یہ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ہونا چاہیے۔بعض اوقات بیماری واپس آجاتی ہے۔ علاج میں جیسے جسمانی بیماری میں سردرد ہے تو کچھ اور علاج ہے، کھانسی ہے تو کچھ اور علاج ہے، نفسیاتی بیماری میں دس پندرہ امراض ہیں ان کے مختلف علاج ہیں۔
سوال: پیدائشی طور پربھی نفسیاتی مریض بچے پیدا ہورہے ہیں؟
ڈاکٹر مبین اختر: اگر بچے کا دماغ متاثر ہو جائے۔ جیسے کسی کی پانچ کے بجائے چار انگلیاںہو جائیں، اسی طرح دماغ کا کوئی حصہ غائب ہو سکتا ہے۔ مختلف وجوہ کی بنا پر مثلاً زخم کی بنا پر، غذا کی قلت کی بنا پر، پیدائش کے دوران اگر آکسیجن کی کمی ہو تو دماغ سب سے پہلے متاثر ہوتا ہے۔ اب تو ہمارے بچوں کو دس پندرہ سال تک صحیح غذا نہیں مل رہی جس کی وجہ سے دماغ متاثر ہوتا ہے۔رپورٹیں آرہی ہیں کہ 50 فی صد بچوں کو درست غذا نہیں مل رہی جس کی وجہ سے بچوں کے دماغ نہیں بڑھ رہے۔
سوال: اس کی کیا وجہ ہے ؟
ڈاکٹر مبین اختر: اس کی وجہ غربت ہے رپورٹیں جو آر ہی ہیں ان کے مطابق 50 فی صد بچوں کو یہ مسئلہ ہے۔ کوڑے دان سے بچے کھانا اُٹھا کرکھا رہے ہوتے ہیں یہ بڑے شہروں میں ہو رہا ہے۔
سوال: بچوں میں یہ صورت حال مغرب میں بھی ہے جہاں خوشحالی ہے یا یہ صرف ایشیا اور افریقا کا مسئلہ ہے؟
ڈاکٹر مبین اختر: غذا ایک وجہ ہے، مغرب میں غذا وجہ یا فیکٹر نہیں ہے، دوسری وجوہ تو ہیں۔
سوال: یہ وہم کیا چیز ہے؟ اور کیا اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔؟
ڈاکٹر مبین اختر: دو تین چیزوں کو وہم کہتے ہیں۔ ایک تو شک کرتے ہیں کہ یہ میرے خلاف ہے میرے پیچھے آرہا ہے، میرا دشمن ہے مجھے زہر دے رہا ہے، مجھ پر جادو کر دیا ہے۔ اس کو ٹیلی نار سمٹم کہتے ہیں۔ دوسرا وہم یہ ہے کہ ہاتھ صاف نہیں ہوئے دھوئے چلے جا رہے ہیں۔ نہا رہے ہیں تو نہائے چلے جا رہے ہیں۔ گالیاں ذہن میں آرہی ہیں۔ اللہ رسول کے خلاف خیالات آرہے ہیں یا پھر ڈپریشن میں ہوتا ہے کہ مجھے ملازمت نہیں ملے گی، مجھے داخلہ نہیں ملے گا۔ منفی پہلو سوچتے ہیں۔ دو تین قسم کے وہم ہیں ان کے مختلف علاج ہیں، یہ بیماری کی علامات ہیں، خود بیماریاں نہیں ہیں۔
سوال: بھولنے کی بیماری کیا ہے؟ ہم عموماً چیزوں اور کاموں کو بھول جاتے ہیں کیا یہ بھی بیماری ہے۔؟
ڈاکٹر مبین اختر: اگر زیادہ ہے تو۔ اس طرح کا معاملہ زیادہ تر بڑی عمر میں ہوتا ہے۔ جس کو ڈیمینشیا (dementia) کہتے ہیں۔ اسی بیماری میں عام طور پر لوگ پچاس یا ساٹھ سال کی عمر میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس میں صرف بھول ہی نہیں ہوتی اور بھی علامات ہوتی ہیں۔ آدمی اپنے کام بھی نہیں کرسکتا، لکھنا اور دستخط کرنا تک بھول جاتا ہے، اس میں بھی شک ہونے لگتا ہے کہ لوگ میرے خلاف ہیں اس کا تو خاطر خواہ علاج بھی نہیں ہے۔
سوال:یہ شیزوفرینیا( Schizophrenia )کیا ہے اور اس کی علامات کیسی ہوتی ہیں۔؟اور علاج کیا ہے؟
ڈاکٹر مبین اختر: اس کی علامات میں یہ ہے کہ مریض بے ربط گفتگو کرتا ہے۔ آوازیں آتی ہیں کوئی اس سے بات کر رہا ہے یا کنٹرول کر رہا ہے۔ چیزیں نظر آتی ہیں جن بھوت وغیرہ نظر آتے ہیں۔ خوشبو اور بدبو بلاوجہ آتی ہے۔ یہ بنیادی علامات ہیں۔ساری علامات ہونا ضروری نہیں۔ اس کے لیے دوائیاں ہیں اور الیکٹرو کنورٹک تھراپی Electroconvertik therapy ہے۔
سوال: جن اور سایہ ہوتا ہے یہ کیا ہے اور کیا سب ہوتا ہے؟
ڈاکٹر مبین اختر: یہ نفسیاتی علامات ہی ہیں، میں نے توآج تک جن نہیں دیکھا، میں نے بیماری میں جن کا رول نہیں دیکھا۔
سوال: مرگی بھی نفسیاتی مرض ہے ؟اور اس میںایک روایتی علاج لوگ چپل یا جوتا سنگھا کر کرتے ہیں، اس کی کیا حقیقت ہے؟
ڈاکٹر مبین اختر: مرگی کا دورہ self limited ہوتا ہے یعنی آپ کو جھٹکے لگیں گے، بے ہوش ہو جائیں گے۔ اس کو ٹھیک ہی ہونا ہے پانچ ، دس یا پندرہ منٹ میں ننانوے فی صد کو ٹھیک ہی ہونا ہے کچھ بھی کریں۔ پیاز سنگھا دیں، جوتا سنگھا دیں، نہ سنگھائیں اپنے وقت پر وہ خود ہی ٹھیک ہو جاتا ہے۔ ان چیزوں کا کردار کوئی نہیں ہے۔ مرگی میں عموماً دماغ میں چھوٹا موٹا زخم ہے کچھ ٹیسٹ میں کبھی آجاتا ہے جسے الیکٹرو انیکوگرافی(Electro Enituo Graphy) کہتے ہیں۔ اس میں تیس سے چالیس فی صد سامنے آجاتا ہے۔ ایکسرے اور ایم آر آئی وغیرہ میں بھی سی ٹی اسکین میں خرابی نظر آجاتی ہے۔ بہت اچھی دوائیں آج کل آگئی ہیں۔
سوال: اسمارٹ موبائل فون کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے؟ کیا یہ بھی نفسیاتی امراض میں اضافے کا باعث بن رہا ہے؟
ڈاکٹر مبین اختر: مغربی دنیا میں نشہ (addiction) کا جو مسئلہ ہے ہم تو ہیروئن اور چرس ہی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے تو انٹرنیٹ ایڈیکشن بھی نکال لیا ہے وہ اسی میں لگے رہتے ہیں۔موبائل فون بھی اسی کا حصہ ہے، موبائل فون کی تو یہ بھی خبریں آرہی ہیں کہ اسی سے ٹیومر ہو جاتا ہے، کینسر ہوجاتا ہے اور دل پر اثر پڑتا ہے۔
سوال:کیا ذہنی و نفسیاتی مسائل کو روکنے میں دینی، مذہبی یا روحانی لگاؤ کوئی کردار ادا کرسکتا ہے۔؟
ڈاکٹر مبین اختر: میرے خیال میں دین ومذہب کا بچاؤ میں کردار ہے۔ معاشرہ اگر خوشگوار ہوگا۔ خاندان کے حالات اچھے ہوں گے تو ان کے اثرات ہوں گے لیکن اگر حالات خراب ہوں گے، معاشرے کا پریشر آتا ہے نفسیاتی، سماجی، معاشی معاملے میں یہ بیماری پیدا کرتے ہیں۔ اگر معاشرہ اچھا ہوگا اور لوگ خوشحال ہوں گے تو بچوں کی بھی تربیت اچھی ہوگی خواہش سے بھی اچھی طرح ڈیل کیا جائے گا۔ اگر کوئی خرابی ہے تو ہوسکتا ہے کہ مرض میں تبدیل نہ ہو۔ ہمارا مذہب اس میں مدد دیتا ہے اور دعا سے تو کہتے ہیں کہ تقدیر بھی بدل جاتی ہے۔ دعا مانگنی چاہیے اس حد تک میرے خیال میں رول ہے مذہب کا۔
اور خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے آپ کیا مشورہ دیں گے؟
ڈاکٹر مبین اختر: میں کہوں گا اسلام پر عمل کریں۔