مدعی ہی کو گرفتار کرلیا 

366

Edarti LOHکہا جاتا ہے کہ انصاف کے لیے عدالت اور تحفظ کے لیے پولیس کے پاس جایئے لیکن پاکستان میں دونوں باتیں غلط ثابت ہو رہی ہیں۔کراچی پولیس نے اس سلسلے میں ایک اور کارنامہ کردکھایا اور مدعی ہی کو ملزم کو بناڈالا ۔ الٰہ دین پارک کی انتظامیہ نے بھتا خوری ، غیر قانونی اقدامات اور دکان کو دانستہ جلائے جانے کی شکایت اور خبروں کی اشاعت کے بعد پولیس کی مدد سے دکان کے مالک کے خلاف ہی جھوٹا مقدمہ درج کر کے گرفتار کرلیا ۔ دکان کے مالک آصف راجپوت نے الزام عاید کیا تھا کہ الہ دین پارک کی انتظامیہ نے دکان کے تالے توڑ کر خود اس میں آگ لگائی تھی۔دکان کے مالک کے مطابق وہ الٰہ دین پارک میں کپڑے کا کاروبار کرتے ہیں اور ان کی دکان نمبر 7/8 رائٹ ونگ ،الہ دین پارک راشد منہاس روڈ گلشن اقبال ، کراچی میں ہے اور اسی پارک میں ان کا گودام بھی ہے جوکہ گودام نمبر R۔31,32اور B۔32ہے ۔ 27/28 ستمبر 2017ء کی درمیانی شب رات ڈیڑھ بجے گودام کے تالے توڑ کر پیٹرول ڈال کر آگ لگادی گئی۔ گودام میں الیکٹر انک کا سامان ، کپڑا کرسیاں ،الماریاں وغیرہ موجود تھیں جوکہ مکمل طور پر جلادی گئیں جس سے 7لاکھ روپے کا نقصان ہو ا۔ ان کے مطابق آگ لگانے والوں میں عمران اللہ بیگ ، اقبال بیگ ، اقبال خٹک ، انعام الحق ، کرنل ریٹائرڈ زاہدوغیرہ شامل ہیں ۔



آصف راجپوت نے 28ستمبر 2017کو گلستان جوہر تھانے میں درخواست جمع کر ائی مگر اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور کہتے رہے کہ الہ دین پارک کی انتظامیہ بڑے اثر ورسوخ کی مالک ہے۔بدھ کو ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں پولیس افسران کے پیش ہونے کے بعد پولیس نے الہ دین پارک کی انتظامیہ کے ایما پر انتقامی کارروائی کرتے ہوئے غلام عباس کی مدعیت میں گلستان جوہر تھانے میں مقدمہ درج کر کے آصف راجپوت کو گرفتار کرلیا ۔ تماشا یہ ہے کہ آصف راجپوت نے 2اکتوبر 2017کو درخواست جمع کرائی تھی ۔اس درخواست پر مورخہ 11اکتوبر 2017ء کو ڈسٹرکٹ جج کے حکم پر ایس ایس پی شر قی کو درخواست دی مگر پھر بھی ایف آئی آر کا اندارج نہیں کیا گیا۔اور بدھ کے روز انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ یہ عدالتی نظام کی خرابی ہے یا پولیس کی شاطرانہ حرکت لیکن ایسے واقعات کے بعد لوگ سچ اور حق بات کہنے سے خوفزدہ ہوجائیں گے۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو اس صورت حال کا نوٹس لینا چاہیے۔