تیسری عالمی جنگ کی گونج

320

zc_ArifBeharامریکا میں حکمران ری پبلکن پارٹی اور سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے رکن سینیٹر باب کروکر نے امریکی صدر کے کردار اور رویے پر بہت کھل کر تنقید کی ہے۔ باب کروکر نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ عہدے کو رئیلٹی شو کی طرح استعمال کر رہے ہیں۔ ٹرمپ جس طرح جوہری ہتھیاروں سے لیس شمالی کوریا کو للکار رہے ہیں وہ امریکا کو تیسری عالمی جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ امریکا کے ایک نامی گرامی سینیٹر نے ڈونلڈ ٹرمپ پر بہت سنگین الزام عائد کیا ہے۔ امریکا اس وقت ایک جنگجو مافیا کے زیر اثر آگیا ہے۔ آج بھی دنیا امریکا کی چھیڑی ہوئی جنگوں کے باعث بدحال ہے۔ اس وقت امریکا تین ملکوں کو کھل کر للکار رہا ہے جن میں دو اعلانیہ ایٹمی طاقتیں ہیں۔ شمالی کوریا کے ساتھ ساتھ پاکستان سے بھی امریکی براہ راست چھیڑ چھاڑ کر رہے ہیں۔



ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پالیسی تقریر میں شمالی کوریا اور پاکستان کو بے نقط سنا ڈالیں۔ اس فہرست میں تیسرا ملک ایران ہے۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ منسوخ کرنے کے لیے حیلے بہانے تلاش کیے جارہے ہیں اور اب ایران کے پاس داران انقلاب کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا جارہا ہے۔ ایران نے ابھی جوہری صلاحیت حاصل نہیں کی مگر اس کا دفاعی نظام اور میزائل سسٹم خاصا مضبوط ہے۔ پاکستان اور شمالی کوریا اعلانیہ ایٹمی طاقتیں ہیں۔ شمالی کوریا کے راہنما کم جونگ ان کھل کر امریکا پر میزائلوں کی برسات کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ وہ دور مار میزائلوں کی خودکش جیکٹ پہنے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایران کے صدر حسن روحانی کہہ رہے ہیں کہ امریکا نے پاس داران انقلاب کو دہشت گرد وں کی فہرست میں شامل کیا تو منہ توڑ جواب دیں گے۔ امریکا کے معتوب تیسرے اہم ملک پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان کے روایتی دھیمے سُروں والے موقف اور معذرت خواہانہ اور دفاعی لہجے کو بدلتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کی آڑ میں کسی دشمن نے کوئی بھی مہم جوئی کرنے کی کوشش کی چاہے وہ کتنا ہی بڑا اور زور آور کیوں نہ ہو اس کو خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ بھارت کے لیے پاکستان کو صرف دشمن کہہ دینا کافی ہوتا ہے مگر جنرل باجوہ کے بیان میں ’’کتنا ہی بڑا‘‘ اور ’’زور آور‘‘ جیسے الفاظ کچھ نئے اور عجیب ہیں۔ ان لفظوں کا مخاطب کون ہے؟ اب یہ کوئی راز نہیں۔



حیرت اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ا س وقت امریکا کے موسٹ فیورٹ دو ملک اسرائیل اور بھارت ہیں۔ اور دونوں ملکوں کے مسلمانوں کے ساتھ بہت گہرے تنازعات چل رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا پر ایک مخصوص صہیونی ذہن غالب آگیا ہے جو اسے مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہا ہے اور یہ سرگرمیاں ایک جنگی ماحول پیدا کر رہی ہیں۔ امریکا میں سینیٹر باب کروکر جیسے لوگ آگے نہ آئے تو ٹرمپ کوئی بڑا حادثہ بھی کروا سکتا ہے جس کے بعد دنیا کے پاس ہاتھ ملنے کے سوا کچھ نہیں رہے گا۔ دنیا میں جاری فتنۂ وفسادکے اہم کرداروں کے رُخ سے اب دھیرے دھیرے نقاب سرکتا جا رہا ہے۔ اب یہ حقیقت واضح ہونے لگی ہے کہ عالمی اور علاقائی سیاست اور صف بندی میں کون کہاں اور کس صف میں کھڑا ہے؟ اب یہ بھی واضح ہورہا ہے کہ دہشت گردی، انسانی حقوق، اقتصادی ترقی سمیت خوب صورت اصطلاحات کے پیچھے اصل مقصد اور مدعا کیا ہوتا ہے؟ امریکا کی طرف سے پاکستان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا ایک ثبوت امریکا کی طرف سے کھل کر سی پیک کی مخالفت ہے۔ امریکی سیکرٹری دفاع جم میٹس نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا ہے کہ چین کا منصوبہ ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ متنازع علاقے میں سے گزر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں بہت سی سڑکیں اور گزر گاہیں موجود ہیں مگر کسی قوم کو ون بیلٹ ون روڈ پر من مانی نہیں کرنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا کی طرف سے سی پیک منصوبے کی مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ متنازع علاقے سے گزرتا ہے۔ چین اور پاکستان نے امریکا کے اس موقف کو کلی مسترد کردیا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کو اقوام متحدہ کی حمایت حاصل ہے اور یہ کسی ملک کے خلاف نہیں۔



سی پیک پر امریکا نے جو موقف اپنایا ہے وہ درحقیقت بھارت کی زبان اور موقف ہے۔ سی پیک گلگت بلتستان کے علاقے سے گزر رہا ہے اور یہ پوری ریاست جموں وکشمیر کا متنازع حصہ ہے۔ پاکستان ہی ریاست کو درست تناظر میں متنازع قرار دیتا اور کہتا ہے۔ بھارت اس ریاست کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے۔ پاکستان اسے حق خودارادیت کا کیس بنا کر پیش کرتا ہے اور اس کیس کو اقوام متحدہ کی قراردادوں سے تقویت حاصل ہوتی ہے جب کہ اٹوٹ انگ والا راگ کوئی اخلاقی اور قانونی بنیاد نہیں رکھتا نہ ہی دنیا اٹوٹ انگ کی راگنی کو تسلیم کرتی ہے۔ سی پیک ایک اقتصادی سرگرمی ہے۔ چین بار بار کہہ رہا ہے کہ اس اقتصادی سرگرمی سے کشمیر پر چین کے موقف پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ پاکستان بھی کشمیر کو بدستور متنازع سمجھ رہا ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر زور دیتا چلا آرہا ہے۔ امریکا اگر اس خطے کو متنازع سمجھتا ہے تو یہ بھارت کے بجائے پاکستانی موقف کی حمایت ہے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر امریکی کھل کر واضح کریں کہ کیا وہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ سمجھتا ہے یا نہیں؟ امریکا ابھی تک سی پیک کے معاملے میں بھارت کے کندھے پر بندوق چلاتا آیا تھا۔ بلوچستان کے حالات کو بگاڑنے کے پیچھے صرف بھارت نہیں بلکہ امریکا بھی تھا اسی لیے تو بلوچستان میں مسلح جدوجہد کے اہم کردار مدتوں سے امریکا اور یورپ میں گلچھرے اُڑارہے ہیں۔