واضح رہے کہ قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ طبیعات کو قادیانی ڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب کرنے کا حکم چند ماہ قبل نواز شریف نے دیا تھا۔ حکومت کے اس اقدام پر پاکستان میں دینی جماعتوں نے احتجاج بھی کیا تھا۔ نوازشریف کے داماد نے مطالبہ کیا کہ عدلیہ میں بیٹھے لوگوں سے ختم نبوت کے سرٹیفکیٹ پر دستخط لینا چاہئیں جب کہ سیاسی جماعتیں بھی انتخابات میں امیدواروں کو ٹکٹ دیتے وقت ختم نبوت کا سرٹیفکیٹ لیں۔ انہوں نے ملک میں اہم عہدوں پر فائز احمدیوں کو برطرف کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ کیپٹن صفدر کا کہنا تھا کہ یہ ملک اس لیے بنایا گیا کہ اس کو ریاست مدینہ کی طرح چلایا جائے گا۔ انہوں نے واضح الفاظ میں پہلی بار قومی اسمبلی کے اجلاس میں جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید ابولاعلی مودویؒ کو زبرردست خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ مولانامودودی نے فتنہ قادیانی کتاب لکھ کر احسان کیا ہے، ان کی قبر نور سے بھری ہوئی ہے۔
کیپٹن ریٹائرڈ صفدر 10اکتوبر کو جب یہ خطاب کررہے تھے تو وہ کہیں سے بھی ’’کثیرالنظریات‘‘ جماعت مسلم لیگ نواز کے عہدیدار نہیں لگ رہے تھے۔ ان کی باتیں ایسی تھیں جیسے مکمل دین پر چلنے والی مذہبی جماعت کے رہنماء کی ہوتی ہیں۔ ان کی یہ تقریر سن کر یقیناًہر ایک کے ذہن میں یہ سوال آیا ہوگا کہ: ’’صرف نیب کی گرفتاری نے کیپٹن صفدر کے ایمان کو جگا دیا؟۔ بہتر ہوتا کہ کیپٹن صفدر اعوان پہلے گرفتار ہوجاتے یا پہلے اپنے دینی جذبات کا اظہار کردیتے۔ حیرت تو اس بات پر بھی ہے کہ صفدر اعوان انتخابی اصلاحات میں ترمیم کے حوالے سے نامزدگی فارم میں ہونے یا کی جانے والی غلطی پر خاموش رہے اور اس غصہ کا اظہار نہیں کیا جو انہوں نے پیر کو قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے فوج میں قادیانیوں کی موجودگی اور اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی میں ڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب فزکس ڈپارٹمنٹ کے نام پر کیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کیپٹن صفدر نیب کی حراست سے نہیں بلکہ کسی تبلیغی اجتماع سے اٹھ کر قومی اسمبلی میں آئے ہیں۔
نوجوان شاعر و صحافی عثمان جامعی کا کہنا ہے کہ: ’’خاتم النبیین ؐ اور عقیدہ ختم نبوت پر جان فدا، لیکن اس عقیدے کو سیاسی مقاصد اور مفادات کے لیے استعمال کرنے کا عمل ختم نبوت کے منکرین کے چلن سے زیادہ خوف ناک اور گھناؤنا ہے، جس پر ن لیگ کیپٹن صفدر کے ذریعے عمل پیرا ہے، جس کا مقصد صرف یہ نظر آتا ہے کہ مشکلات بڑھنے پر، مقدمات کے فیصلوں پر اور عام انتخابات کی مہم کے دوران سینہ ٹھونک کر کہا جائے کہ ہم ختم نبوت کا دفاع کرنے والے ہیں اس لیے قادیانیوں نے سازش کرکے ہمارے وزیراعظم کو نااہل کروایا، ہمیں حکومت سے نکال باہر کیا اور ہمیں مقدمات میں پھنسایا‘‘۔
سوال یہ ہے کہ کیپٹن صفدر کو قادیانیوں کے فوج اور دیگر اداروں میں اہم عہدوں پر موجود ہونے کا خیال اب کیوں آیا؟ کیا فوج میں بھرتی اور ترقی کرکے کیپٹن بننے دوران یہ بات ان کے علم میں نہیں آئی تھی؟ 2008 میں پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے کے بعد بھی انہیں یہ علم نہیں ہوا تھا جس کا اظہار وہ اپنی گرفتاری اور اپنے سسر کی نااہلی بعد کررہے ہیں۔ اچانک اسلام پسندی اور قادیانیوں کے بارے میں لب کشائی کرنے والے کیپٹن صفدر سے قوم یہ پوچھنا چاہتی ہے کہ: ’’آپ اسلام کی ایسی کون سی خدمت کر رہے ہیں کہ کوئی اسلام دشمن آپ کے خلاف سازش کرے گا؟‘‘۔
عام لوگ شاید اس بات سے ناواقف ہوں کہ مسلم لیگ نواز اپنے منشور کے مطابق کثیر نظریاتی جماعت ہے۔ یہ قدامت پسند، قوم پرست، اکنامک لبرل ازم، مالی قدامت پسند (Fiscal conservatism)، لبرل قدامت پسند، فیڈرل ازم اور اسلامک ڈیموکریسی کے نظریات رکھنے والی جماعت ہے۔ مسلم لیگ نواز کے منشور کے آخر میں اسلامی جمہوریت کی بات کی گئی ہے۔ ’’اسلامی جمہوریت‘‘ سے کیا مراد ہے یہ وضاحت تو مسلم لیگی یا اس کے نااہل سربراہ ہی کرسکتے ہیں۔
کیپٹن صفدر نے قومی اسمبلی میں اپنے سسر میاں نواز شریف کے اس اقدام کی مخالفت کی جس کے تحت انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی کے شعبے طبیعات کو ڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب کیا۔ حالاں کہ جب میاں نواز شریف نے یونیورسٹی کے مذکورہ شعبے کو ڈاکٹر عبدالسلام کے نام کررہے تھے اس وقت موصوف خاموش تھے۔ کیوں کہ وہ اپنے سسر کے فیصلوں پر آواز اٹھانے کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔ فوج سمیت ہر ادارے میں تمام اقلیتوں کا کوٹا مخصوص ہے۔ مجھے یہ بات یقین کے ساتھ کہنی مشکل نہیں کہ قادیانیوں کی بات کرتے ہوئے کیپٹن صفدر کا نشانہ کون لوگ اور کون سا ادارہ تھا۔ میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ کیپٹن صفدر سے اس خطاب کے بارے میں پوچھ گچھ ضروری ہے۔ اس لیے کہ رکن قومی اسمبلی نے بھرے اجلاس میں یہ کہا کہ پاک فوج میں احمدی موجود ہیں۔ اہم اور دلچسپ بات یہ ہے کہ نواز شریف کے داماد کی تقریر کی کسی سیاسی جماعت یا مذہبی جماعت سے پزیرائی نہیں کی، شاید اس لیے کہ وہ سب سمجھ رہے ہیں کہ کیپٹن صفدر کی تقریر ملک اورقوم کے استحکام سے زیادہ ان کے اور ان کے سسرال کے استحکام کے لیے تھی۔ ہمارے سیاست دانوں کی اکثریت ملک اور قوم کے نام پر گزشتہ 70 سال سے یہی کچھ تو کررہی ہے۔ ایسا کرکے نہ صرف ملکی اداروں کو بدنام کیا جاتا ہے بلکہ جگ ہنسائی کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایسے مداریوں کا سخت احتساب نہیں کرسکتے۔