سابق وزیراعظم میاں نواز شریف پر پاناما کیس میں انتہائی سنگین الزامات لگائے گئے تھے مگر الزامات کے اس پہاڑ کے نیچے سے اقامہ نکالا گیا سو، سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کے حامی یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا!۔ نواز لیگ کو عدلیہ کے خلاف بولنے کا موقع اسی لیے ملا ہے کہ پہاڑ کھود کر چوہا نکالا گیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ میاں نواز شریف کو اقامت گاہ سے نکالنے کے بجائے اقامہ کیوں نکالا گیا۔
مجھے کیوں نکالا کی بازگشت ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ ’’مجھے کیوں روکا‘‘ کا شور شرابا برپا ہے۔ شاید یہ بھی قیامت برپا ہونے کی علامت ہے۔ وزیر داخلہ جناب احسن اقبال کو عزت نفس کا بھی خیال نہ آیا وہ وزیر داخلہ ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کے محکمے اور ان سے متعلق افسروں کی مرضی کے بغیر رینجرز کوئی کام کرے۔ رینجرز اور فوج بغیر حکم کے کوئی قدم نہیں اٹھاتی۔ متعلقہ عدالت کے جج صاحب! حکومت کا شکریہ ادا کررہے ہیں اور وزیر داخلہ فرما رہے ہیں کہ اگر رینجرز کے اس اقدام پر سخت ایکشن نہ لیا گیا تو وہ مستعفی ہوجائیں گے البتہ عدالت کو یہ اعتراض ہے کہ وکلا اور میڈیا پرسن کو کیوں روکا گیا؟۔ رینجرز حکام کا کہنا ہے کہ عدالت نے حکم دیا تھا کہ کسی کو بھی عدالت میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ یہاں ’’کسی کو بھی‘‘ قابل غور ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ بوٹوں والے چوغوں والوں سے زیادہ سخن فہم ہیں۔
اب ایک اور مسئلہ ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کا ہے۔ ایک بل کے ذریعے ختم نبوت کے قانون میں تبدیلی کردی گئی تھی جو ہرگز! ہرگز! قابل قبول نہیں تھی۔تبدیلی یہ تھی کہ ختم نبوت کا حلفیہ اقرار کرنے کے بجائے صرف یہ کہنا ہی کافی ہے کہ میں اقرار کرتا ہوں کہ ختم نبوت پر میرا ایمان ہے گویا حلفیہ بیان اور اقرار نامے کا فرق مٹادیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ختم نبوت کے قانون میں تبدیلی کیوں کی گئی تھی اور اس کا مقصد کیا ہے؟
اس کی وجہ درآمد ہدایت تو نہیں؟۔ ہم نے انہی کالموں میں کہا تھا کہ عدالتوں میں شہادت کے لیے کمیشن تشکیل دیا جانے لگا ہے اور وکلا ’’میں خدا کو حاضر ناظر جان کر اقرار کرتا ہوں کہ جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا۔ سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا‘‘ میں ترمیم کا آغاز ہوچکا ہے اب گواہ کا بیان یوں شروع ہوتا ہے جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا مگر کسی نے توجہ نہ دی۔ مذہبی ممالک میں مذہبی کتاب پر ہاتھ رکھ کر حلف لیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہوتا تھا مگر وکلا جانتے ہیں کہ گواہ جھوٹ بول رہا ہے سو، انہیں یہ خوف لاحق ہوا کہ جھوٹا حلف لینے پر کہیں ان پر خدا کا قہر نہ نازل ہوجائے۔ انہوں نے قرآن حکیم پر حلفیہ بیان لینا چھوڑ دیا اسی طرح اب حلفیہ بیان کے بجائے اقراری بیان لینے کی رسم ڈالی جارہی ہے اور اب ارکان اسمبلی سے ختم نبوت کا حلفیہ بیان لینے کے بجائے اقراری بیان لینے کا بل منظور کرلیا گیا تھا مگر اسلامیہ جمہوری پاکستان میں یہ ممکن نہیں۔ میاں صاحب خدا کو حاضر ناظر جان کر سوچیے کہ سازش کون کررہا ہے۔ کہاں ہورہی ہے؟ اور کس کے خلاف ہورہی ہے؟ میاں صاحب! سازش اسلام آباد کے خلاف نہیں اسلام کے خلاف ہورہی ہے۔