لیکن اس موقع پر ن لیگ سے تعلق رکھنے والے وکلا نے وہ ہلڑ مچایا کہ جج صاحب کمرہ عدالت چھوڑ کر چلے گئے اور وکلا کا مقصد پورا ہوگیا۔ فرد جرم عاید نہیں ہوسکی۔ عدالت کے اندر اور باہر جو کچھ ہوا وہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہوا اور وکلا گردی کا مظاہرہ کھل کر کیا گیا۔ عدالت کے احاطے میں وکلا پولیس سے الجھ پڑے اور ایک ن لیگی وکیل نے پولیس انسپکٹر کو تھپڑ مار دیا۔ یہ صاحب نہ صرف پرانے لیگی کارکن ہیں بلکہ پنجاب حکومت کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ہیں۔ ان کا اسلام آباد میں کیا کام تھا؟ کیا وہ اپنی پارٹی کی ہدایت پر خاص طور پر اس کام کے لیے اسلام آباد بھیجے گئے تھے؟۔عدالت کے جس کمرے میں سماعت ہورہی تھی اس میں زیادہ لوگوں کی گنجائش نہیں تھی لیکن پہلے کیپٹن صفدر کے ساتھ اور پھر مریم نواز کے پیچھے اتنے لوگ داخل ہوگئے کہ کمرہ عدالت میں بھیڑ لگ گئی۔ اس پر وکلا کی طرف سے شیم شیم کے نعرے بھی لگائے گئے۔ عدالت کے باہر ہنگامہ کرنے والے وکلا کے چہرے وڈیوز میں محفوظ ہوگئے ہیں لیکن اس کا امکان کم ہے کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوسکے کیونکہ وکلا نے ایک بڑے گروہ کی حیثیت اختیار کرلی ہے اور حال ہی میں کئی بار عدالتوں پر حملے، توڑ پھوڑ اور ملتان کے جج کے خلاف ہنگامہ کرچکے ہیں۔ کسی کو سزا نہیں ہوئی، کوئی نہیں پکڑ میں آیا۔ اب بھی ممکن نہیں کہ پنجاب ہو یا وفاق وزیر قانون مسلم لیگ ن کا، وزیر داخلہ ان کا اور حکومت ان کی۔ لیکن اس حرکت سے لوگوں کو 1997ء میں عدالت عظمیٰ پر میاں نواز شریف کا دھاوا یاد آگیا ہے جو آج تک ن لیگ کے دامن پر سیاہ داغ ہے۔ جمعہ کی ہنگامہ آرائی بھی حکمران جماعت کے لیے بدنامی کا باعث بنے گی۔ بس اتنا ہی تو ہوا ہے کہ فرد جرم عاید کرنے کی تاریخ آگے بڑھ گئی ہے۔