معیشت پر مناظرے کا سماں

409

Edarti LOHپاک فوج اور سول حکمرانوں میں پاکستان کی معیشت کے حوالے سے بالکل غیر ضروری بحث شروع ہوگئی ہے جس نے مناظرے کی سی شکل اختیار کرلی ہے۔ ایک طرف سے بیان آتا ہے تو دوسری طرف سے جواب آجاتاہے۔ فوج کی طرف سے اس سے پہلے کبھی معیشت کے حوالے سے تجزیے سامنے نہیں آئے۔ اس اعتراض پر ڈی جی آئی ایس آئی میجر جنرل آصف غفورکا جواب آیا ہے کہ ہر پاکستانی کو معیشت کے بارے میں بات کرنے کا حق ہے۔ یقیناًحق ہے اور عام آدمی اس پر بات بھی کرتا رہتا ہے۔ لیکن کیا یہی حق ہر شخص کو فوج اور اس کی کارکردگی پر بات کرنے کا ہے ؟ ایسا ممکن نہیں اور اگر کوئی بات کرے تو گرفت میں آجاتا ہے کیوں کہ فوج کو ہمیشہ سے ’’مقدس گائے ‘‘ کی حیثیت حاصل ہے۔ سول حکمرانوں کو بھی یہ جرأت نہیں کہ وہ فوجی معاملات پر تنقید کرسکیں ورنہ ملک کی سالمیت متاثر ہوتی ہے۔ سول حکومت فوج کی تمام ضروریات پوری کرتی ہے تاکہ کوئی گڑبڑ نہ ہو۔ اس وقت بار بار کہا جارہا ہے کہ مارشل لا کا کوئی خطرہ نہیں ۔ اس یقین دہانی کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے اور یہ یقین کس کو دلایا جارہا ہے۔ پاکستان کی معیشت کی خرابی میں ماضی کی فوجی حکومتوں کا بھی حصہ ہے۔ فوج کے ترجمان نے پاکستانی معیشت پر جو تبصرہ کیا ہے اس کے جواب میں وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کا ردعمل بھی بڑا سخت آیا ہے۔ انہوں نے میجر جنرل آصف غفورکو مشورہ دیا کہ وہ معیشت پر تبصروں سے گریز کریں ، ملکی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے۔ احسن اقبال یہاں تک کہہ گئے کہ ’’ ایسی باتیں کوئی دشمن ہی کرسکتا ہے‘‘۔ کیا وہ فوجی ترجمان کو ملک دشمن قرار دے رہے ہیں؟



اگلے ہی دن جواب الجواب میں میجر جنرل آصف غفور نے پھر ایک پریس کانفرنس کرڈالی جس میں انہوں نے کہا کہ میں نے جو کہا میں اس پر قائم ہوں۔ جہاں تک ترجمان کے غیر ذمے دارانہ بیانات سے عالمی ساکھ متاثر ہونے کا خطرہ ہے تو کیا معیشت کے حوالے سے پاکستان کی ایسی ساکھ ہے جو متاثر ہوسکتی ہے۔ کس کو نہیں پتا کہ پاکستان قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے ۔ گزشتہ 4سال میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے قرض لینے کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ یہ قرضے کہاں گئے ، ان کا استعمال کہاں ہوا اور ان سے ملک اور عوام کو کیا فائدہ پہنچا، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ۔ حال یہ ہے کہ قرضوں کا سود چکانے کے لیے مزید قرضے لینے پڑتے ہیں۔ سی پیک کی وجہ سے مزید قرضے چڑھائے جارہے ہیں اور جب ان کی ادائیگی کا وقت آئے گا تو قرض لینے والے جانے کہاں ہوں گے۔ عوام کی گردن میں پھندا کستا جارہا ہے۔ بین الاقوامی سود خور ادارے اگر مزید قرضے دینے کا وعدہ کرلیں تو خوشی سے بغلیں بجائی جاتی ہیں کہ یہ ہماری معیشت پر اعتبار کا ثبوت ہے۔ بہرحال اب فوج اور حکومت میں مناظرے کا یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے جس سے اس تاثر کی بھی نفی ہوتی ہے کہ فوج اور سول حکومت ایک ’’پیج‘‘ پر ہیں ۔ فوج کو معیشت پر اپنی تشویش کا اظہار کرنا ہی ہے تو اس کے لیے پریس کانفرنسیں کرنا مناسب طریقہ نہیں ۔