مسلمان ایک بار پھر ظلم و جبر کا شکار۔ درندگی کی اندوہناک مثال۔ برما کے مسلمان بھی اُسی سازش کا شکار نظر آتے ہیں جس کا شکار مظلوم کشمیری بنے۔ برطانیہ سب سے بڑا دشمن اسلام ہے۔ تاجروں کی شکل میں دنیا کے کسی بھی خطے میں جا کر بلکہ گھس کر وہاں پر قابض ہوجانا اور پھر جب وہاں کے لوگ آزادی کی تحریک چلا کر انہیں نکلنے پر مجبور کرتے ہیں تو جاتے جاتے اپنی گھٹیا مسلم دشمن سوچ کو عملی جامہ پہنا جاتے ہیں۔ برما کے صوبے اراکان کے رہنے والے مسلمانوں کا قصور بھی کشمیریوں کی طرح صرف اتنا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت انہوں نے مشرقی پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہش ظاہر کی تھی۔ آج جو سلوک ہندوستان کشمیریوں کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہے وہی سلوک برما کی فوج نے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ شروع کیا ہوا ہے۔ کیا بچے کیا جوان اور کیا عورتیں سب اس کی لپیٹ میں ہیں۔ تو کہاں ہیں ہیومن رائٹس کی تنظیمیں جنہیں ملالہ پر نام نہاد ظلم نظر آتا ہے اور ایک طوفان اُٹھا دیا جاتا ہے مگر ان مظلوموں پر ہونے والے مظالم دکھائی نہیں دیتے کیا وجہ ہے؟ صرف ایک کہ جہاں اسلام کے خلاف کچھ کرنے کا موقع آئے تو ہیومن رائٹس الرٹ ہوجانے والی تنظیمیں اور جہاں اسلام کا دفاع آئے تو ان کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔
چلو یہ تو ایک حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ ہو یا نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں وہ تو ہیں ہی غیر مسلم مگر ہم مسلمان کیا کررہے ہیں۔ عرب لیگ اور او آئی سی کہاں ہیں؟ مسلم ممالک خاموش کیوں ہیں؟ صرف ایک ترکی؟ کیا سارے فرائض ترکی کے ہیں؟ باقی اُمت مسلمہ کیوں سورہی ہے؟ شاید وہ خوش فہمی کا شکار ہیں کہ ’’وہ‘‘ جل رہے ہیں تو ہم نہیں جل سکتے۔ مگر یاد رکھیں جب تک مسلمان متحد نہ ہوں گے تو اس آگ کی لپیٹ میں سب آئیں گے کیوں کہ باطل کو مٹانا آسان نہیں۔ ہاں اگر متحد ہوجائیں تو ممکن ہے ناممکن نہیں۔ Pak Tv کے ایک ٹاک شو میں تجزیہ نگار نے خوب مشورہ بھی دے دیا، کہ باطل کی قوتوں کو معاشی طور پر کمزور کردیا جائے ان کو حتمی طور پر بتایا جائے کہ اگر برما میں دہشت گردی ختم نہ کی گئی تو آپ کی مصنوعات نہیں لی جائیں گی، یہ قومیں بس اسی دھمکی کی مار ہیں کوشش تو کیجیے!!۔
حریم شفیق، شادمان ٹاؤن