ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر

2585

سعدیہ عبدالحمید، جامعہ المحصنات کراچی
غفلت کسی بھی قوم کے لیے سم قاتل کی حیثیت رکھتی ہے، قومیں وہی زندہ رہتی ہیں جو بیدار مغز ہوتی ہیں، عرصہ دراز سے امت مسلمہ غفلت کا شکار رہی ہے اور اسی غفلت کا نتیجہ ہے کہ مسلمان ذہنی، دینی و دنیوی کسی بھی حال میں مطمئن نہیں ہیں، لیکن اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ آج کل عالم اسلام میں کئی تحریکیں موجود ہیں جو ہر جگہ پر واضح طور پر محسوس کی جاتی ہیں اور اسی بیداری سے دنیائے فرنگ گھبرا رہی ہے اور ان کی یہ گھبراہٹ اہل یورپ کی تصانیف سے عیاں ہے لیکن اس تحریکی بیداری نے ابھی تک مسلمانوں کو اس قابل نہیں بنایا کہ وہ یورپ، امریکا، جاپان کے باشندوں سے مقابلہ کرسکیں!
قرآن پاک میں واضح طور پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں، مومنوں سے عزت کا وعدہ فرمایا پھر کیوں آج امت مسلمہ ذلیل و رسوا ہے امت مسلمہ کے رسوا ہونے کے اسباب درج ذیل ہیں…..!
اخلاق کا زوال:۔ مسلمانوں کے ذلیل و رسوا ہونے کا ایک سبب اخلاقی تباہی ہے، قرآن نے ایک دوسرے کا مذاق اڑانے، بُرے القابات سے پکارنے، بدگمانی، ٹوہ میں لگنے اور غیبت کرنے سے منع کیا ہے مگر آج مسلمانوں میں یہ تمام اخلاقی برائیاں نظر آتی ہیں۔ قرآن نے جو اصول ہمیں بتائے تھے امت مسلمہ نے ان سب اصول و قوانین کو ترک کردیا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ کسی قوم کی بلندی کے لیے باقی چیزوں کے ساتھ ساتھ اخلاق عالیہ کی موجودگی بھی ضروری ہے۔ قومیں اس وقت تک زندہ رہتی ہیں جب تک ان میں اخلاقیات موجود ہوں اور ان قوموں کی عزت نہیں رہتی جن میں اخلاق کی کمی ہو۔



عدم اتحاد:۔ مسلمانوں کے تنزل کا ایک سبب عدم اتحاد ہے آج امت مسلمہ کا شیرازہ بکھر چکا ہے، خود غرضی، نفس پرستی کا غلبہ ہے، مسلمانوں کے اندر انتشار پھیلتا جارہا ہے، اجتماعی طاقت فنا ہوتی جارہی ہے، رنگ و نسل کی جنگ شدت اختیار کرچکی ہے جب کہ اللہ نے قرآن میں واضح طور پر فرما دیا کہ….. صبغۃ اللہ….. یعنی اللہ نے تمام رنگوں کو مٹا کر صرف صبغۃ اللہ فرمادیا۔ تو پھر اس تعصب کی گنجائش کہاں سے نکلتی ہے۔
بتان رنگ و خون کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تو رانی، ہے باقی، نہ ایرانی، نہ افغانی
ذلت و رسوائی کا بنیادی سبب:۔ ذلت و رسوائی کا بنیادی سبب قرآن سے دوری ہے کیوں کہ مسلمانوں کے عروج کا سبب اسلام کا ظاہر ہونا اور نزول قرآن تھا، جس نے فرقوں کو ایک قوم بنادیا تھا، سخت دلوں کو نرم کردیا تھا اور ان کے اندر روحانی تبدیلیاں رونما ہوئیں کہ وہ عزت، علم و ہنر اور دولت کی بلندیوں پر پہنچ گئے اور پچاس سال کے عرصے میں آدھی دنیا کو فتح کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو اتنی عزت و رفعت اور تاریخ عالم کی فاتح اقوام میں شمار کی وجہ یہ تھی کہ قرآن ان کے سینوں میں محفوظ تھا اور وہ قرآن کی عملی تصویر ہوا کرتے تھے۔ اس قدر ایمان کی دولت و طاقت سے مالا مال تھے کہ تین سو تیرہ ہزار ہر بھاری پڑ گئے۔
ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے
پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے
اسلحہ و جنگی سازوسامان سے بے نیاز لڑتے اور فتوحات کرتے۔



یورپ کا فاتح اعظم ’’بونا پارٹ‘‘ مسلمانوں کی اس عظیم مثال کے بارے میں کہتا ہے کہ: سیدنامحمدؐ نے عربوں کو ازسر نو پیدا کیا تھا۔ انہیں ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں تلوار دے کر کہا تھا جاؤ….. دنیا کو فتح کرو حکومت کرو اور فائدہ اُٹھاؤ۔
آج کے دور میں مسلمانوں نے اس کتاب و سنت کو چھوڑا تو ان کی قائدانہ صلاحیتیں ختم ہوگئیں، ان کی حکومتیں اغیار کی دستِ نگر بن گئیں، قرآن کی تعلیمات کی جگہ انسانی خواہشات، ذاتی مفاد، رسم و رواج نے لے لی تو ملت کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا۔ اس کا رُعب اور دبدبہ ختم ہوگیا، باطل قومیں ہم پر شیر ہوگئیں اور اس طرح ٹوٹ پڑیں جس طرح بھوکے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور اس امت مسلمہ کی اس حالت کی خبر دیتے ہوئے آپؐ نے فرمایا تھا کہ:’’عنقریب قومیں تم پر ٹوٹ پڑیں گی جیسے بھوکے کھانے پر ٹوٹ پڑنے کے لیے بلاوا دیتے ہیں‘‘ ۔(ابوداؤد)
ان پر فتنے اس طرح ظاہر ہورہے ہیں گویا محسوس ہوتا ہے کہ ہار ٹوٹ گیا ہو اور یکے بعد دیگرے دانے بکھر رہے ہوں۔
کرب کی بات یہ ہے کہ آج کائنات میں اگر مظلوم ہیں تو وہ امت مسلمہ اور اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے یہی وجہ ہے کہ آج امت مسلمہ کا زوال نظر آرہا ہے امت مسلمہ کے عروج و زوال کی اس تاریخ پر آپؐ کا یہ فرمان صادق آتا ہے۔
’’اللہ اس کتاب کی وجہ سے کچھ قوموں کو بلندی عطا کرتا ہے اور کچھ قوموں کو پستی میں دھکیل دیتا ہے‘‘۔ (مسلم)
صحابہ کرامؓ اور دور اوّل کے مسلمان اپنے تمام اصول قرآن سے وضع کرتے اور قرآن کو حرز جان بنایا کرتے تھے تبھی اللہ نے انہیں عروج بخشا۔ افسوس یہ ہے کہ آج مسلمان قرآن کریم سے اپنی گہری عقیدت کا اظہار کرتے ہیں اس کی ادنیٰ سی توہین بھی برداشت نہیں کرتے لیکن حقیقت میں ہمارا عملی رویہ قرآن سے بے اعتنائی کا ہے کہ….. قرآن پر مرنا جانتے ہیں لیکن قرآن پر جینا نہیں جانتے، اور اللہ کی سنت جاریہ ہے کہ جو امت بھی اس کتاب کی قدر نہیں کرتی اس کے کلام سے بے اعتنائی برتتی ہے اور اس کے احکامات پر عمل کرنا چھوڑ دیتی ہے اس کے لیے ذلت و رسوائی لازم آتی ہے۔ وہ اللہ کی کتاب کو چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ انہیں بے یارومددگار چھوڑ دیتا ہے اس کی واضح مثال قرآن دیتا ہے کہ:



کاش انہوں نے توراۃ اور انجیل اور ان دوسری کتابوں خو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں ایسا کرتے تو ان کے لیے اوپر سے رزق برستا اور نیچے سے ابلتا۔ (سورۃ مائدۂ)
اور جو قوم قرآن کے احکامات کی روگردانی کرتی ہے اس کے نتیجے میں وہ غضب کا شکار ہوجایا کرتی ہے اور دنیا میں ذلیل و رسوا ہو کر رہ جاتی ہے۔
یہی حال آج ہمارا ہے مسلمانوں کی اکثریت کا عملاً قرآن سے کچھ تعلق نظر آتا ہے تو بس یہ کہ وہ اسے اپنے گھروں میں لپیٹ کر الماریوں میں سجا رکھتے ہیں اور کبھی کبھار برکت کے لیے قرآن خوانی کرواتے ہیں ایسے میں مسلمانوں کے اس رویے کا شکوہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے کہ:
طاقوں میں سجایا جاتا ہوں، آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں
تعویذ بنایا جاتا ہوں، دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں
قرآن کا مقصد تو یہ تھا کہ اسے نافذ کیا جاتا، اس پر عمل کیا جاتا، نہ کہ اسے سجا کر طاقوں میں رکھا جاتا یا رمضان میں اس کو پڑھنے کا خصوصی اہتمام کیا جاتا۔ قرآن ختم بھی کرلیتے ہیں لیکن اس کی تعلیمات کی طرف توجہ نہیں کرتے۔
ہم نے قرآن سے منہ موڑ لیا اس کے احکامات کو بجا لانے میں اپنی جگہ سے جنبش تک نہیں کی تو پھر شکوہ کیسا۔



کہ ہم محتاج ہیں، مصائب و مشکلات کا شکار ہیں، دشمن نقصان پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کررہا ہے، ایسی حالت میں قرآن ہمارے پاس ایک روشنی ہے جس سے ہم گھٹا ٹوپ تاریکی دور کرسکتے ہیں، اپنی مشکلات و مسائل کا ازالہ کرسکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں، قرآن کو حرز جان بنائیں کیوں کہ اللہ کا قانون اٹل ہے اور اس کی سنت غیر مبدل ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے اس کتاب کو مضبوطی سے تھاما اسے اپنا دستور حیات بنایا وہ بام عروج پر پہنچی اسے دنیاوی ترقی حاصل ہوئی اور دوسری قوموں نے اس کی قیادت و سیادت تسلیم کی اور جس نے اسے پس پشت ڈالا وہ دنیا میں ذلیل ہوئی اور پستی کے گڑھے میں جاگری، اس سنت کا اطلاق ہم پر بھی ہوتا ہے۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر