ایران کے ساتھ بین الاقوامی جوہری معاہدہ کی توثیق سے انکار، صدر ٹرمپ کی گہری شاطرانہ چال ہے۔ وہ یہ معاہدہ منسوخ کرنا نہیں چاہتے اس لیے انہیں علم ہے کہ وہ اکیلے معاہدہ منسوخ نہیں کر سکتے کیوں کہ اس معاہدہ میں اقوام متحدہ اور دوسرے ممالک شامل ہیں جن میں امریکا کے اتحادی برطانیہ، فرانس اور جرمنی بھی شریک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ نے معاہدہ منسوخ کرنے کے بجائے اس کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ اگلے ساٹھ روز کے لیے امریکی کانگریس کے سپرد کر دیا ہے۔ در اصل اس اقدام کے تحت ٹرمپ کچھ اور حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ٹرمپ کے اس اقدام سے یہ بات بھی بے نقاب ہوگئی ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب کس حد تک ہم نوا ہیں اور پاکستان میں عام مستعمل اصطلاح میں ایک پیج پر ہیں۔ دنیا کے بیش تر ممالک نے ٹرمپ کے اس اقدام پر کڑی نکتہ چینی کی ہے اور جیسے کہ جرمنی کے وزیر خارجہ سگمار گیبریل نے خبردار کیا ہے کہ ٹرمپ کے اس اقدام سے جنگ کا خطرہ یورپ کے قریب پہنچ جائے گا، لیکن اسرائیل اور سعودی عرب صرف د و ممالک ہیں جنہوں نے ٹرمپ کے اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔ دنیا کے بیش تر ممالک کو اس بات کا خطرہ ہے کہ اگر امریکی کانگریس نے ایران کے خلاف تادیبی پابندیاں دوبارہ عائد کیں تو اس صورت میں ایران کے ساتھ معاہدہ ٹھپ پڑ جائے گا اور اگر ٹرمپ نے جوہری معاہدہ معطل کردیا تو دونوں صورتوں میں ایران کے لیے جوہری اسلحہ تیار کرنے کی راہ کھل جائے گی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ کو سابق صدر اوباما سے ایسی نسلی جانی دشمنی ہے کہ وہ اوباما کے ہر اقدام کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ حتیٰ کہ ایران کے ساتھ معاہدہ کو جو اوباما کا اہم کارنامہ قرار دیا جاتا ہے، یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اس سے زیادہ بد ترین اور کوئی معاہدہ نہیں ہو سکتا، ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ اس معاہدے سے ایران کو جوہری طاقت بننے سے نہیں روکا جا سکتا، جب کہ خود امریکا کے اتحادی جو اس معاہدہ میں شامل ہیں ان کی یہ رائے ہے کہ ایران اس معاہدہ پر پوری طرح سے عمل کر رہا ہے اور اقوام متحدہ کی جوہری توانائی کی ایجنسی جو اس معاہدے کی نگرانی کر رہی ہے اس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایران نے اس معاہدے کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔ ٹرمپ کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ امریکی کانگریس کو بھی ایران کے ساتھ معاہدہ منسوخ کرنے کا اختیار نہیں اور پھر وہی حقیقت رکاوٹ بنتی ہے کہ اکیلے امریکی صدر اور امریکی کانگریس یہ بین الاقوامی معاہدہ منسوخ نہیں کرسکتے۔
اس صورت حال میں ٹرمپ کی طرف سے معاہدے میں شامل یورپی اور دوسرے ممالک پر زور دیا جارہا ہے کہ یا تو موجودہ معاہدے میں ردو بدل کیا جائے اور اگر یہ ممکن نہیں تو نئے سرے سے ایک دوسرا معاہدہ کیا جائے۔ اس اقدام کے پیچھے در اصل ٹرمپ کی یہ کوشش ہے کہ ایران کے بیلسٹک میزائل کی تیاری کے پروگرام کو بھی نئے معاہدے کے حصار میں لایا جائے کیوں کہ ایران کے ساتھ موجودہ معاہدہ صرف جوہری اسلحہ پر پابندی کے بارے میں ہے یہ ایران کے میزائل پروگرام کا احاطہ نہیں کرتا۔ ایران جس تیزی سے میزائل کی تیاری کے میدان میں پیش رفت کر رہا ہے، امریکا کو اس پر گہری تشویش ہے۔
ٹرمپ نے ایران کے جوہری معاہدے کی توثیق سے انکار کے سلسلے میں یہ جواز پیش کیا ہے کہ ایران اس علاقے میں دہشت گردوں کی مدد کر رہا ہے اور انہیں اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ اس بارے میں ٹرمپ نے پاسداران انقلاب کو خاص طور پر نشانہ بنایا ہے۔ اس سلسلے میں ٹرمپ نے نہایت احتیا ط سے کام لیا ہے۔ انہوں نے پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظیم قرار نہیں دیا کیوں کہ انہیں علم ہے کہ ایران واضح طور پر خبردار کر چکا ہے کہ اگر امریکا نے پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تو یہ کھلم کھلا اعلان جنگ ہوگا۔
ایران کے صدر روحانی نے ٹرمپ کے اقدام پر اپنے سخت ردعمل میں کہا ہے کہ امریکی صدر سراسر جاہل ہیں۔ اور یہ بات واقعی صحیح ہے کیوں کہ ٹرمپ نے پاسداران انقلاب کو ایران کے رہبر اعلیٰ کی نجی دہشت گرد فورس قرار دیا ہے جب کہ پاسداران انقلاب جو 1979ء کے انقلاب ایران کے فوراً بعد منظم ہوئے تھے ایک آزاد فوجی کمان کے تحت ہیں۔ ایران اور عراق کے درمیان جنگ کے دوران، پاسداران انقلاب نے اہم فتوحات حاصل کی تھیں جس کی بنا پر اسے طاقت ور فوج تسلیم کیا جاتا ہے، یوں ایران دنیا کاواحد ملک ہے جہاں آزاد کمان کے تحت دو فوجیں ہیں۔ پاسداران انقلاب فوجی تنظیم سے کہیں زیادہ اہم ہے۔
نظریاتی محافظ کے علاوہ پاسداران کا با اثر میڈیا گروپس پر کنٹرول ہے، خاص طور پر فارس نیوز ایجنسی اس کی تحویل میں ہے۔ اس کے علاوہ پاسداران انقلاب کی اس بنا پر سب سے زیادہ اہمیت ہے کہ خاتم الانبیا کا انجینئرنگ ادارہ پاسداران کے کنٹرول میں ہے۔ یہ وسیع صنعتی ادارہ جس میں ایک لاکھ پینتیس ہزار کارکن کام کرتے ہیں ایران اور عراق کی جنگ کے بعد تعمیر نو کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ خاتم الانبیا کے اس ادارے نے کچھ عرصے قبل تیل کے چار منصوبوں کے لیے 25ارب ڈالر منظور کیے تھے ان میں سے ایک منصوبہ تیل صاف کرنے کا منصوبہ ہے جس کی تکمیل کے بعد ایران پٹرول کے معاملے میں خود کفیل ہو جائے گا۔
امریکا خاتم الانبیا کے ادارے کو نشانہ بنانے اور اسے تباہ کرنے کے اس وجہ سے درپے ہے کہ یہی ادارہ ایران میں بیلسٹک میزائل کی تیاری کے پروگرام میں مصروف ہے اور چوں کہ یہ ادارہ پاسداران انقلاب کے کنٹرول میں ہے لہٰذا ساری کوشش پاسداران کو دہشت گرد ی میں ملوث کر کے اس کے خلاف بین الاقوامی محاذ قائم کرنے کی ہے۔
جولائی 2015ء میں جوہری اسلحے کے بارے میں معاہدے کے بعد ایران نے بیلسٹک میزائل کی تیاری کا منصوبہ شروع کیا تھا اور تین ماہ بعد میزائل کے تجربوں کا آغاز ہوا تھاجن میں سب سے پہلا تجربہ سترہ سو کل میٹر دور تک مار کرنے والا عماد میزائل کا تجربہ شامل تھا۔ نومبر 2015ء میں ایران نے دو ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر مار کرنے والے میزائل غدر کا تجربہ کیا تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ اس وقت ایران کے پاس تین سو کلومیٹر دور تک مار کرنے والا ایک شہاب میزائل، ایک سے دس تک فاتح میزائل، سات سو کلو میٹر دور تک مار کرنے والا، ذوالفقار میزائل، دو ہزار کلومیٹر تک مارکرنے والے تین عماد اور غدر میزائل ایک سجیل میزائل اور ڈھائی ہزار کلو میٹر دور تک مارکرنے والا خرم شہر میزائل ہے۔
ٹرمپ کی طرف سے پاسداران انقلاب پر دہشت گردوں کی مدد و اعانت کے الزام کے فوراً بعد امریکی وزارت خزانہ نے پاسداران انقلاب کو دہشت گردی کے خلاف قانون کے دائرہ عمل میں لانے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت امریکی حکام کا کہنا ہے کہ پاسداران کو ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کے بیش تر اتحادیو ں کو خطرہ ہے کہ ٹرمپ کے اقدام کے نتیجے میں یورپ کے قریب جنگ کی آگ بھڑک سکتی ہے۔ تہران سے لے کر بیروت تک اس پورے علاقہ میں پاسداران انقلاب کا بڑا وسیع اثر رسوخ ہے، خاص طور پر عراق میں جہاں موصل میں داعش کے خلاف جنگ میں پاسداران نے عراقی فوج کے ساتھ مل کر کارروائی کی ہے۔
ایران کی فوج ’’ارتش‘‘ ملک کی سرحدوں کی حفاظت پر مامور ہے جب کہ آئین کے تحت پاسداران انقلاب، اسلامی جمہوریہ کے نظام کے محافظ ہیں۔ میجر جنرل محمد علی جعفری کی سربراہی میں پاسداران میں ایک لاکھ پچیس ہزار سپاہ ہیں جن میں بری، فضائی اور بحری دستے شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت امریکا کا سب سے بڑا نشانہ ایران کے پاسداران انقلاب ہیں اور ٹرمپ کا ایران کے جوہری معاہدے کی توثیق سے انکاراور موجودہ معاہدے میں ترمیم یا نئے معاہدے پر اصرار کا مقصد ایران کے میزائل پروگرام کی راہیں مسدود کرنا ہے اور اسی لیے نشانہ پاسداران انقلاب کو بنایا جارہاہے۔