فدائیانِ ختمِ نبوت کی توجہ کے لیے

1058

الحمد للہ! قانونی ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ کے امیدواروں کی رکنیت فارم کے ساتھ لازمی ڈیکلریشن میں اقرارِ ختم نبوت کی شق کے شروع میں ’’حلفیہ اقرار کرتا ہوں‘‘ کے الفاظ دوبارہ شامل کردیے گئے ہیں اور قانون سازی کی حد تک اس دانستہ فعل یا غفلتِ مجرمانہ کا ازالہ ہوچکا ہے۔ اب یہ ترمیم ’’الیکشن ریفارمز ایکٹ‘‘ کا حصہ بن چکی ہے، جن دینی وسیاسی جماعتوں، تنظیموں اور افراد نے اس پر خالصۃً رضائے الٰہی، سید المرسلین ؐ کی محبت اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے ہر سطح پر احتجاج کیا، وہ یقیناًعند اللہ ماجور ہوں گے اور اپنے آقا خاتم النبیین سیدنا محمد رسول اللہ ؐ کی بارگاہ میں سرخرو ہوں گے۔ مسلم لیگ ن کی سطح پر جناب راجا ظفر الحق کی سربراہی میں قائم کمیٹی کی تحقیقات کا شدت سے انتظار رہے گا تاکہ معلوم ہوسکے کہ اس مجرمانہ فعل کا ذمے دار کون ہے اور اُسے کیا سزا دی گئی۔ اس وقت حکومتِ وقت معتوب بلکہ مغضوب ہے، اپوزیشن اگرچہ باہم منقسم ہے، لیکن سب حکمراں جماعت مسلم لیگ ن اور اس کی قیادت پر چاند ماری کرکے ثواب کمانے میں ایک دوسرے پر سبقت لینے میں مصروف ہیں۔ اس شور وغوغا میں پوری صورتِ حال کا صحیح ادراک نہیں کیا جارہا، چناں چہ مجھے انگلینڈ سے مولانا نصیر اللہ نقشبندی نے فون کیا کہ علماء ومشائخ اہلسنت کی خواہش ہے کہ آپ اس مسئلے کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کریں۔



یہاں یہ بھی ریکارڈ پر لانا ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں جو پرزور احتجاج ہوا، وہ ختمِ نبوت کے اقرار نامے میں ’’حلف ‘‘ کے حذف کرنے پر نہیں تھا، بلکہ وہ صرف اُس دفعہ کے حذف کرنے پر تھا جس کے تحت قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے نا اہل قرار دیا ہوا شخص کسی سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں بن سکتا، کیوں کہ اس کا براہِ راست فوری فائدہ نواز شریف صاحب کو پہنچانا مقصود تھا۔ صرف اِس دفعہ کو خلافِ دستور قرار دینے کی بابت کئی افراد نے عدالت عظمیٰ میں پٹیشنز دائر کی ہیں، سب کو عدالت عظیٰ کے فیصلے کا انتظار ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ کسی مسئلے کا قانونی جواز ہر صورت میں اخلاقی معیار پر بھی پورا اترے۔ اس کی واضح مثال نیب کا پلی بارگین یعنی ’’استدعا برائے مُک مُکا‘‘ کا قانون ہے، جو تاحال نہ صرف ہمارے ملک کا باقاعدہ قانون ہے، بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں اس طرح کے قوانین رائج ہیں۔ اس کا جواز یہ بتایا جاتا ہے کہ عدالتی معیار پر جرم کے ثبوت دستیاب نہ ہونے کے سبب اکثر صورتوں میں ملزم بری جاتے ہیں، لہٰذا کچھ بھی برآمد نہ ہونے کے بجائے دباؤ ڈال کر کچھ نہ کچھ برآمد کرلینا ہی بہتر ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس میں کرپشن کا خفیہ سوراخ بھی ممکنہ طور پر موجود ہے۔
ہمارے ہاں جذباتی فضا میں پورا سچ بیان کرنا دشوار ہوتا ہے، یہ ’’آبیل مجھے مار‘‘ کے مترادف ہے۔ لیکن اب مناسب وقت ہے کہ سیاسی یا غیر سیاسی میدان میں مذہبی تنظیمیں چلانے والے حضرات اس مسئلے کے تمام پہلوؤں پر توجہ دیں اور آئندہ جب بھی کسی دینی مسئلے پر احتجاج کی نوبت آئے تو سب ذمے داران سے مسؤلیت ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اصل ذمے داری حکومتِ وقت اور حکمراں جماعت کی ہوتی ہے، لیکن دوسرے ارکانِ پارلیمنٹ بھی بری الذمہ قرار نہیں دیے جاسکتے۔
پارلیمنٹ کی الیکشن ریفارمز کمیٹی کافی عرصے سے جامع انتخابی اصلاحات پر کام کر رہی تھی، اس کے ذمے انتخابات کے متفرق قوانین کو جامع اندا ز میں یکجا کر کے ان میں مزید اصلاحات کرنا شامل تھا۔ ہماری پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے ارکان کی مجموعی تعداد 446 ہے، قومی اسمبلی کے ارکان کی کل تعداد 342 اور سینیٹ کی 104 ہے۔ ہمارے ہاں قانون سازی کا طریقۂ کار یہ ہے کہ ڈرافٹ بل یعنی مسوّدۂ قانون وفاقی وزیرِ قانون یا کوئی بھی مُجاز وزیر اسمبلی میں پیش کرتا ہے، پہلے اس پر عمومی بحث ہوتی ہے، پھر دوسری اور تیسری خواندگی ہوتی ہے۔ الغرض قومی اسمبلی کے اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ مسوّدۂ قانون کا ایک ایک لفظ، ایک ایک جملہ پڑھوا کر ایوان میں سناتے ہیں اور ایوان سے بل کی شق وار منظوری لیتے ہیں اور پھر صدرِ مملکت کے دستخط ہونے کے بعد وہ ایکٹ یعنی ملک کا قانون بن جاتا ہے۔



جس مسئلے پر نزاع پیدا ہوا، وہ ایمان وکفر کا مسئلہ نہیں تھا، کیوں کہ اقرارِ ختمِ نبوت کی عبارت ڈیکلریشن فارم میں موجود تھی اور اسلامی عقائد کی کسی کتاب میں یہ درج نہیں ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم حلف اٹھائے بغیر کلمۂ اسلام پڑھے تو وہ اسلام میں داخل نہیں ہوسکتا یا کسی مسلمان کا حلف کے بغیر ختمِ نبوت کا اقرار کرنے سے اُس کا عقیدہ مشتبہ قرار پائے گا۔ پس علمائے ربانییّن کی ذمے داری ہے کہ ادِلّ�ۂ شرعیہ کی روشنی میں جس بات پر جتنا شرعی حکم مرتّب ہوتا ہو، وہ لگایا جائے، خواہ وہ حکم تفسیق و تضلیل کا ہو یا پھر انتہائی درجے میں کفر وارتداد کا۔ درپیش صورت حال میں یہ جرم سرزد ہوا کہ ’’حلفیہ اقرار کرتا ہوں‘‘ کے الفاظ حذف کردیے گئے اور اسی طرح Solemnly کا لفظ بھی حذف کردیا گیا تھا، جس کے معنی ہیں: ’’صدقِ دل سے‘‘، باقی مجرّد اقرار نامہ بدستور موجود تھا۔ میں نے ایک ماہرِقانون سے پوچھا کہ عام حالات میں حلف کے بغیر بھی اقرارِ ختمِ نبوت معتبر ہے، یہاں ’’حلفیہ اقرار‘‘ کے الفاظ حذف کرنے سے کیا قانونی اثر مرتّب ہوگا؟۔ انہوں نے جواب دیا: ’’اگر ایک شخص نے ختمِ نبوت کا حلفیہ اقرار کیا ہے اور بعد میں ناقابلِ تردید شواہد سے یہ ثابت ہوجائے کہ وہ قادیانی ہے، تو جھوٹا حلف نامہ داخل کرنے پر اسے پارلیمنٹ کی رکنیت سے نا اہل قرار دیا جاسکتا ہے‘‘، سو قانونی نتائج کے اعتبار سے ’’حلفیہ اقرار‘‘ کی بڑی اہمیت ہے۔
دیانۃً اور قضاءً یعنی قانون کی نظر میں پارلیمنٹ کی ’’انتخابی اصلاحاتی کمیٹی‘‘ اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے 446 ارکان جواب دہ ہیں، یہ درست ہے کہ ہم ستّر یا اسّی فی صد ذمے داری حکومتِ وقت اور حکمراں اتحاد پر ڈالیں گے لیکن بیس یا تیس فی صد ذمے داری سے پارلیمنٹ کا ایک بھی رکن بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔ اس میں مذہبی سیاسی پس منظر رکھنے والے اور مذہبی جماعتوں کے ارکان کی ذمے داری دوسروں سے بدرجہا زائد ہے۔ لیکن حیرت کا مقام ہے کہ سب ارکان جوابدہ بننے اور اپنی پوزیشن واضح کرنے کے بجائے حکومت پر حملہ آور ہوکر بری الذمہ، بلکہ آج کل کے محاورے کے مطابق ’’پَوِتْر‘‘ ہوجاتے ہیں اور ہمارے سادہ لوح مذہبی لوگ مطمئن ہوجاتے ہیں، یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص چوری کرے اور پھر چوری کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے مجمع میں شامل ہوکر پرزور نعرے لگانا شروع کردے۔
میں نے یہ آرٹیکل لکھنے سے پہلے جماعتِ اسلامی کے ذمے داران سے پوچھا کہ آپ بحیثیت جماعت اپنی پوزیشن واضح کریں کہ آپ نے یہ شق منظور ہونے، الیکشن ریفارمز کمیٹی کے مسوّدے کی تیاری اور پھر قومی اسمبلی اور پارلیمنٹ میں اس کی منظوری کے موقع پر پُرزور احتجاج کرتے ہوئے رائے شماری کا مطالبہ کیوں نہیں کیا
باقی صفحہ11نمبر1
مفتی منیب الرحمن
تاکہ قوم کے سامنے یہ حقیقت کھل کر آتی کہ ان الفاظ کو حذف کرنے میں عملی، ذہنی اور فکری اعتبار سے کون کون سے ارکانِ پارلیمنٹ شامل ہیں۔ اس پر جماعتِ اسلامی کے قانونی شعبے کے جناب سیف اللہ گوندل نے مجھ سے جماعت کی پوزیشن واضح کرنے کے لیے رابطہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے ارکان نے اس پر آواز اٹھائی تھی اور جنابِ سراج الحق اپنی جماعت کی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں شرکت کے باعث سینیٹ میں خود شریک نہ ہوسکے اور انہوں نے جے یو آئی کے سینیٹر حافظ حمد اللہ کے ذمے لگایا کہ آپ اس مسئلے کو سینیٹ میں اٹھائیں۔ گوندل صاحب کے بقول انہوں نے یہ مسئلہ اٹھایا تو 13ارکان نے ان کی حمایت کی اور سینیٹر اعتزاز احسن سمیت 34ارکان نے اس کی مخالفت کی۔ میں نے گوندل صاحب سے کہا کہ ازراہِ کرم سینیٹ کی کارروائی کی نقل مجھے ارسال فرمادیں، انہوں نے کہا: سینیٹ کے ریکارڈ کی کاپی ہمیں سرِدست دستیاب نہیں ہے، تاہم انہوں نے اپنا پریس ریلیز اور سیکرٹری سینیٹ آف پاکستان کے نام سینیٹر حافظ حمد اللہ صاحب کے خط کی کاپی ارسال کی۔ اسی طرح سے صاحب زادہ طارق اللہ، صاحب زادہ محمد یعقوب، شیر اکبر خان اور محترمہ عائشہ سید کے مشترکہ ناموں سے بھی مختلف شقوں اور دفعات کے حوالے سے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کردہ ایک خط کی کاپی مجھے ارسال کی۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ تجاویز دفتر ہی میں رد کردی گئیں یا اسمبلی کے فلور پر پیش ہوئیں اورکثرتِ رائے سے رد کردی گئیں، اس کی بابت تاحال مجھے ریکارڈ دستیاب نہیں ہوسکا۔ میری رائے میں جنابِ سراج الحق پر لازم تھا کہ اپنی مجلسِ شوریٰ کے اجلاس کو ایک دن کے لیے مؤخر کردیتے اور اس حسّاس مسئلے پر بذاتِ خود اجلاس میں شریک ہوتے اور پُرزور احتجاج کرتے تاکہ جماعتی وابستگی سے قطع نظرتمام مخالفین بے نقاب ہوتے۔
بعد میں مولانا فضل الرحمن نے قومی اسمبلی میں فاٹا کے صوبۂ خیبر پختون خوا میں انضمام وادغام کے مسئلے پر گفتگو کرنے کے علاوہ ختمِ نبوت کے اقرار نامے میں ’’حلفیہ اقرار کرتا ہوں‘‘ کے الفاظ حذف ہونے پر بھی گفتگو کی، اس غفلتِ مجرمانہ کے ازالے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے یہ اعتراف بھی کیا: ’’اس غفلت کی ذمے داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے‘‘، میں جہاں اس غفلتِ مجرمانہ کی مذمت کرتا ہوں، وہاں مولانا کے اعتراف پر ان کی تحسین بھی کرتا ہوں، کسی اور رکن نے اس طرح واضح طور پر اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کیا۔ اب دیانت دارانہ اور جامع تحقیق کے بعد ہی نتیجہ سامنے آسکتا ہے کہ آیا یہ سب کچھ دانستہ اور کسی داخلی یا خارجی قوت کے ایما پر ہوا ہے یا محض بشری فروگزاشت ہے۔ مذہبی طبقات سمیت کسی بھی فرد سے بشری فروگزاشت کے امکان کورد نہیں کیا جاسکتا، لیکن 446 ارکان پر مشتمل پارلیمنٹ سے اس طرح کی غفلتِ مجرمانہ کا صدور پوری قوم کے لیے الارمنگ ہے کہ ہمارے منتخب نمائندے اپنے اہم فرائض کے بارے میں کس قدر غیر سنجیدہ اور غافل رہتے ہیں۔ اس مضمون کا بقیہ حصہ اگلے کالم میں ملاحظہ فرمائیں۔