سندھ پر آسیب کا سایہ

434

اگر آپ گورننس کے حوالے سے صوبہ سندھ کا موازنہ صوبہ پنجاب اور کے پی کے سے کریں تو سندھ کی صورت حال نہایت مایوس کن نظر آتی ہے۔ حالاں کہ وسائل کے لحاظ سے سندھ ایک مالامال صوبہ ہے۔ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد اب ترقی صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے۔ 2017 کے این ایف سی ایوارڈ میں سندھ کا حصہ 612 ارب روپے سے زائد ہے۔ اسی طرح گزشتہ سات آٹھ برس سے سالانہ ایک خطیر رقم عوام کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے سندھ حکومت کو دی جاتی ہے۔ لیکن اگر آپ سندھ کے شہروں اور دیہی علاقوں کا سفر کریں تو صوبہ سندھ تباہی اور بربادی کا منظر پیش کرتا ہے۔ کچروں کے ڈھیر، ٹوٹی ہوئی سڑکیں، ابلتے گٹر، ہسپتال خود بیماری پھیلانے کے مراکز، اسکول جانوروں کے اصطبل، رشوت خور سرکاری اہلکار اور سیاست زدہ پولیس، غرض یہ کہ سندھ پر آسیب کے سایے کا گمان ہوتا ہے۔
2017 کے این ایف سی ایوارڈ میں خیبر پختونخوا کا حصہ تقریباً 390 ارب روپے ہے جو سندھ سے 222 ارب روپے کم ہے۔ اگر آپ دونوں صوبوں میں ترقیاتی کاموں کا موازنہ کریں تو خیبر پختونخوا میں اسکول، ہسپتال، انفرا اسٹرکچر، پولیس کا نظام، کرپشن پر کنٹرول اور عوام کی مجموعی حالت سندھ سے بہت بہتر نظر آتی ہے۔ پنجاب سے تو کوئی موازنہ ہی نہیں کیا جا سکتا پنجاب میں گورننس کی صورت حال دونوں صوبوں سے بہتر ہے۔ یہ تاثر مشہور ہے کہ اگر آپ بذریعہ کار سندھ سے پنجاب کی طرف سفر کریں تو جیسے ہی سڑک ہموار ہوجائے اورآپ کو سرسبز لہلہاتے کھیت نظر آئیں تو آپ سمجھ جائیں کے آپ پنجاب میں داخل ہوچکے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ پنجاب سے سندھ کی طرف سفر کریں تو جیسے ہی ٹوٹی ہوئی سڑک، گرد و غبار اور رشوت خور اہل کار نظر آئیں، تو آپ سمجھ جائیں کہ آپ سندھ میں داخل ہوچکے ہیں۔
آخر ایسا کیوں ہے؟ سندھ بھی پاکستان کا حصہ ہے اور وہ تمام عوامل جو ملک کے دوسرے حصوں میں کار فرما ہیں وہ یہاں بھی موجود ہیں تو آخر فرق کیا ہے؟ اصل میں سندھ میں حقیقی قیادت موجود نہیں۔ اس صوبے کی بدقسمتی یہ رہی کہ اس کی حقیقی قیادت قتل کردی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر یہاں کی اصل قیادت تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی نے سندھی عوام میں شدید عدم تحفظ اور احساس محرومی پیدا کیا۔ اس عدم تحفظ نے ایک نعرے کو جنم دیا
’’کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے۔ تم کتنے بھٹو مارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا‘‘۔
اس نعرے کے تحت بینظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے دوبارہ جنم لیا۔ لیکن بدقسمتی سے 2007 میں بینظیر بھٹو کی شہادت نے سندھ کے لوگوں میں عدم تحفظ کے احساس کو شدید ترین کردیا اور انہیں اپنی زمین اور مستقبل ہاتھ سے جاتے دکھائی دیے۔ اور اس صورت حال نے انہیں پیپلز پارٹی کے قلعہ میں قید کردیا۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کی باگ دوڑ آصف علی زرداری کے ہاتھ آگئی۔ یہ حقیقی قیادت نہیں تھی۔ آصف علی زرداری کی اصل صلاحیت ایک حقیقی سیاست دان سے زیادہ ایک پاور بروکر کی تھی جو جوڑ توڑ اور داو پیچ تو جانتا ہے لیکن ایک مقبول عوامی لیڈر نہیں ہوسکتا۔ بینظیر کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری کو ملک کی صدارت، وفاق اور دو صوبوں کی حکومت، سینیٹ اور قومی اسمبلی کی اسپیکر شپ اور چاروں صوبوں کی گورنرشپ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی وزارت عظمیٰ اور وزارت اعلیٰ ملی۔ اگر وہ حقیقی لیڈر ہوتے تو بینظیر کی اس سیاسی میراث کی حفاظت کرتے لیکن انہوں نے اتنی بڑی پارٹی کو صوبہ سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود کردیا۔
سندھ کے عوام اپنے احساس عدم تحفظ کی وجہ سے بار بار پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے رہے۔ یہ ووٹ پیپلز پارٹی نے بجائے کسی کارکردگی کے، بھٹو اور بینظیر کے خون کے صدقے میں حاصل کیے۔ نتیجتاً انہوں نے سندھ کے عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح ٹریٹ کیا، مد مقابل نہ ہونے کی وجہ سے انہیں کارکردگی دکھانے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ جب چاہیں عوام سے جذباتی بلیک میلنگ کے ذریعہ ووٹ حاصل کرسکتے تھے۔
جمہوری نظام کا اصل مقصد ہی پر امن تبدیلی اقتدار ہے۔ اگر ایک لامتناہی عرصے کے لیے کسی ایک گروہ کو اقتدار حاصل ہوجائے تو وہ من مانی ہی کرے گا۔ سندھ میں ایک طویل عرصے سی پیپلز پارٹی اقتدار میں ہے اور اس کا کوئی مدمقابل نہیں ہے۔ عوام کے پاس کوئی اور چوائس نہیں۔ لہٰذا پیپلز پارٹی یہی کچھ ڈیلیور کرسکتی ہے جو کر رہی ہے سندھ کے شہری علاقوں کی صورت حال بھی کم و بیش یہی ہے۔ یہاں بھی ایک ہی پارٹی کا راج رہا اور اس کا کوئی مقابل نہیں تھا۔ یہ پارٹی آہستہ آہستہ ایک مافیا کی شکل اختیار کر گئی اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ سندھ کی ایک اور بدنصیبی شہری اور دیہی علاقوں کی گہری لسانی تقسیم بھی ہے۔ دو بڑے شہروں میں اردو بولنے والوں کی اکثریت ہے اور اندرون سندھ سندھی بولنے والوں کی۔ دونوں لسانی اکائیوں کے درمیان گزشتہ ستر سال میں گہری ہوتی خلیج کو کسی نے کم کرنے کی کوشش نہیں کی اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ مسئلہ ایک گمبھیر شکل اختیار کرگیا اور اب آبادی کے تناسب، وسائل کی تقسیم اور دیگر معاملات پر ایک گہرا اختلاف موجود ہے جس کا نتیجہ بہت بھیانک ہوسکتا ہے۔
اس کے مقابلے میں مسلم لیگ ن بھی بہت عرصے سے پنجاب میں اقتدار میں ہے لیکن اسے ہمیشہ مقابلے کا سامنا رہا۔ پہلے پیپلز پارٹی اس کے مد مقابل ہوتی تھی اور اب تحریک انصاف۔
مسلم لیگ پر ہمیشہ کارکردگی دکھانے کا دباؤ رہا لہٰذا انہوں نے ڈیلیور کیا۔ آپ شہباز شریف سے لاکھ اختلاف کریں لیکن ان کی کارکردگی سے انکار ممکن نہیں۔
میرے خیال میں پاکستان میں سب سے زیادہ سیاسی شعور صوبہ خیبر پختونخوا کے عوام میں ہے۔ انہوں نے سب کو آزمایا پہلے پیپلز پارٹی پھر مسلم لیگ ن پھر ایم ایم اے پھر اے این پی اور اب تحریک انصاف۔ اگر تحریک انصاف نے ڈیلیور نہیں کیا تو ان کی بھی چھٹی ہوسکتی ہے۔ آنے والے وقت میں خیبر پختون خوا پاکستان کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ صوبہ ہو سکتا ہے کیوں کہ وہاں ہر سیاسی پارٹی کو سخت مقابلے کا سامنا ہے اور کارکردگی دکھائے بغیر الیکشن جیتنا نا ممکن ہے۔
سندھ کی اس زبوں حالی کی ذمے داری سندھ کے عوام سے زیادہ پاکستان کی قومی سیاسی پارٹیوں پر عائد ہوتی ہیں۔ انہوں نے سندھ کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ انہیں چاہیے تھا کہ سندھ پر بھرپور توجہ دیتے، یہاں اپنے دفاتر قائم کرتے اور الیکشن میں سندھ کے عوام کے لیے سیکنڈ آپشن بنتے۔ مسلم لیگ ن نے اگر کبھی کوشش کی بھی ہے تو پیپلز پارٹی مخالف روایتی وڈیروں کو اپنے ساتھ ملا کر نہایت بے دلی سے خانہ پری کے لیے الیکشن لڑا۔ تحریک انصاف بھی سندھ پر صحیح توجہ نہ دے سکی۔
سندھ میں تازہ ہوا اور صحت مند مقابلے کی ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں سندھی عوام کے پاس ایک اور آپشن ہونا چاہیے تاکہ ہر پارٹی پر کارکردگی دکھانے کا دباؤ ہو۔
فریال تالپور کی ایک جلسے میں عوام سے دھمکی آمیز خطاب کی کلپ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ وہ عوام کو شاہ دولے کے چوہے سمجھتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کے عوام کے سر پر لوہے کا خول چڑھا ہوا ہے اور وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ اگر ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعتوں نے سندھ پر توجہ دی تو وہ وقت دور نہیں جب یہاں کے عوام بھی جمہوریت، ترقی اور خوشحالی کے ثمرات سے لطف اندوز ہوں گے اور سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں پر مسلط آسیب کے سائے سے نجات مل جائے گی۔