آرمی چیف کا ملکی معیشت پر اظہار خیال

564

جنرل قمر باوجوہ نے چند روز قبل ملک کی سلامتی کے ساتھ معیشت پر کیا بات کردی کہ بعض شخصیات نے آسمان سر پر اٹھالیا۔ ان کے رد عمل سے ایسا لگتا ہے کہ آرمی چیف کو ملک کی معیشت پر بات کرنے کا حق ہی نہیں ہے ان کا کام صرف سرحدوں کی حفاظت ہے بس۔ حالاں کہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور تاجر برادری نے آرمی چیف کے بیان کی تعریف کی۔ پاک فوج کے سربراہ کے بیان پر اپوزیشن لیڈر اور تاجر برادری کی رائے جاننے سے قبل جنرل قمر جاوید باجوہ کے بیان کی طرف دیکھنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جنرل قمر باجوہ نے کہا ہے کہ: ’’آج سلامتی اور معیشت ایک دوسرے سے منسلک ہیں، تمام قومیں پرانی سوچ پر نظرثانی کرتے ہوئے اقتصادی استحکام اور قومی سلامتی کے درمیان توازن پر توجہ دے رہی ہیں، سوویت یونین کے پاس ہتھیار کم نہ تھے لیکن کمزور معیشت کے سبب وہ ٹوٹا، ہمیں معیشت اور سلامتی کے درمیان قابل عمل توازن کے تسلسل کو یقینی بنانا ہے، اسی صورت میں ہم ایک ایسا مستقبل حاصل کر سکیں گے جس میں ہمارے لوگوں کے لیے پائیدار امن اور مسرت یقینی ہو‘‘۔ آرمی چیف نے کہا کہ: ’’ملکی ترقی بڑھی ہے تو قرضے بھی آسمان پر چلے گئے، انفرا اسٹرکچر اور توانائی میں نمایاں طور پر بہتری آئی لیکن تجارتی توازن بہتر نہیں ہے، جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح کم ہے جس کو بڑھانے کی ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عام آدمی کو ریاست کی جانب سے مدد اور مساوی سلوک کی یقین دہانی کی بھی ضرورت ہے‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ: ’’نان اسٹیٹ ایکٹرز سیکورٹی ترجیحات کنٹرول کرنا چاہتے ہیں، ہم نے ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والوں کو شکست دیدی، ہمارا خطہ ڈوبے گا تو سب ڈوبیں گے، معاشی استحکام کے لیے عدم استحکام دور کرنا ہوگا، ہمارے مشرق میں جھگڑالو بھارت، مغرب میں غیر مستحکم افغانستان ہیں لیکن ہم نئی دہلی سے دوستی چاہتے ہیں تاہم تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے، یقین دلاتا ہوں کراچی محفوظ رہے گا، معاشی سرگرمیاں بڑھیں گی‘‘۔ قمر باجوہ کے اس بیان سے بعض حکومتی شخصیات اور مفاد پرست ایسے رد عمل کا اظہار کررہے ہیں جیسے کسی اور ملک کی شخصیت نے ہمارے ملک کی معیشت پر تنقید کی ہو۔ آرمی چیف کی بات پر سخت ردعمل ظاہر کرنے والے یہ بات شاید بھول ہی گئے کہ ملک کو بیرونی خطرات سے زیادہ اندرونی خطرات و سازشوں کو سامنا رہتا ہے ایسی صورت میں پاک آرمی نہ چاہنے کے باوجود ملک کے اندرونی معاملات پر توجہ دیتی رہی ہے۔ فوجی سربراہ کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرنے والے دراصل جمہوریت پسندی کی آڑ میں فوج سے نفرت کرنے والے وہ چند افراد اور ان کے زرخرید غلام ہیں جو ملک کا استحکام نہیں چاہتے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ فوج کی بلاجواز تعریف کرنے والوں میں بھی مفاد پرستوں کی تعداد زیادہ ہے۔



آرمی چیف کی باتیں ایک حساس پاکستانی باتیں کی ہیں۔ ان کے مذکورہ بیان پر اعتراض کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے ملک میں آمریت کے خلاف جدوجہد کرنے والی پیپلز پارٹی کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے فوج کے سربراہ کے موقف کی مخالفت نہیں کی ان کا کہنا تھا معیشت پر بات کرنے کا حق ہر ایک کو ہے اور آرمی چیف کو بھی معیشت پر بات کرنے کا پورا حق ہے اگر جنرل قمر جاوید باجوہ کو معیشت پر کوئی غلط فہمی ہے تو حکومت دور کرے۔ ملکی معیشت بہتر ہو گی تو کنٹرول لائن محفوظ رہے گی۔ جب کہ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں معیشت پر بیانات سے گریز کرنا چاہیے کیوں کہ غیر ذمے دارانہ بیانات ملکی ساکھ متاثر کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) کے چیئرمین محمد عارف یوسف جیوا نے جنرل قمر جاوید باجوہ کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرمی چیف کے خطاب سے پاکستان بالخصوص کراچی کی بزنس کمیونٹی کے حوصلے بڑھے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے کراچی سمیت پورے پاکستان کی سلامتی اور معاشی سرگرمیاں بڑھنے کی یقین دہانی سے بلڈرز اور ڈیولپرز میں تحفظ کا احساس پیدا ہوا ہے۔
اگر ملک کے تاجر اور اپوزیشن لیڈر آرمی چیف کے بیان سے اتفاق کررہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ملک کی ’’ریڑھ کی ہڈی‘‘ آرمی چیف کے ساتھ ہے۔ ایسی صورت میں نادان جمہوری حکومت کو اپنے طرز عمل کا جائزہ لیکر ’’خود احتسابی‘‘ پر عمل کرنا چاہیے۔