روشن بھارت میں مسلمانوں کا شکار

349

معصوم مراد آبادی

اگر کسی مقتول کا نزاعی بیان بھی قاتلوں کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لیے کافی ہے تو پھر سمجھ لیجیے کہ اس ملک میں انصاف کا جنازہ نکل چکا ہے۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ کوئی شخص مرتے وقت پولیس کے روبرو جو بیان دیتا ہے وہ قانون کی نگاہ میں بنیادی ثبوت تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس بیان کی بنیاد پر اکثر لوگوں کو تختہ دار پر چڑھتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ لیکن گؤکشی کے جھوٹے الزام میں انتہائی درندگی اور وحشت کے ساتھ ہلاک کیے گئے پہلو خان کا نزاعی بیان بھی ان کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے کام نہیں آسکا ہے، کیوں کہ راجستھان حکومت کے کئی وزیر اور خود وزیر داخلہ قاتلوں کو بچانے کی کوشش میں ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگارہے تھے۔ ان لوگوں نے ملزمان کو اسی وقت بے قصور قرار دے دیا تھا جب اس کیس کی تحقیقات بھی شروع نہیں ہوئی تھیں۔ گزشتہ اپریل میں راجستھان کے الور علاقے میں انتہائی سفاکی اور بیدردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارے گئے دودھ کے تاجر پہلو خان کے قاتلوں کو ریاستی پولیس نے کلین چٹ دے دی ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے پہلو خان پر گائے کی اسمگلنگ کا الزام عائد کرکے قاتلانہ حملہ کیا تھا اور ان کے نام خود پہلو خان نے مرتے وقت پولیس کے سامنے بیان کیے تھے۔ اس نزاعی بیان کی باقاعدہ ویڈیو ریکارڈنگ بھی ہوئی تھی مگر ان ملزمان کا تعلق چوں کہ بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد جیسی سنگھ پریوار کی تنظیموں سے تھا لہٰذا مقامی انتظامیہ اور ریاستی حکومت نے انہیں سزا سے بچانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو اس سے پہلے سادھوی پر گیا ٹھاکر اور سوامی اسیمانند کو مالیگاؤں اور سمجھوتا ایکسپریس بم دھماکوں کے مقدمے سے بری کرانے کے لیے این آئی اے نے کیا تھا۔
اس ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کا شکار ہونے والے مسلمان ہمیشہ ہی بدقسمت رہے ہیں اور ان کے قاتلوں کو شاذ و نادر ہی سزا ملی ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات کی طویل اور درد ناک تاریخ اس کی گواہ ہے۔ یہ تاریخ اب گؤکشی کے الزام میں درندگی کا شکار ہونے والے مسلمانوں کے ساتھ بھی دہرائی جارہی ہے کیوں کہ دونوں کے مجرموں میں بڑی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اس ملک کی قانونی مشینری بھرپور تحفظ فراہم کرتی ہے۔ گؤر کشا کے نام پر پیٹ پیٹ کر ہلاک کرنے کی سب سے پہلی اور سنگین واردات دو برس قبل اترپردیش کے دادری ٹاؤن میں ہوئی تھی، جہاں محمد اخلاق کو باقاعدہ ایک مندر کے لاؤڈ اسپیکر سے ہجوم جمع کرکے سفاکی کے ساتھ ہلاک کردیا گیا تھا۔ محمد اخلاق کی ہلاکت کے معاملے نے عالمی شہرت حاصل کی تھی اور اس سے ہندوستانی تہذیب پر بھی سوالیہ نشان کھڑے ہوئے تھے۔ ریاست میں اس وقت ایک سیکولر سرکار تھی لیکن اس کے باوجود ملزمان کے خلاف مقدمات اتنے کمزور قائم ہوئے کہ سب کو یکے بعد دیگرے ضمانت ملتی چلی گئی۔ گزشتہ تین سال کے دوران پورے ملک کے اندر ہجومی تشدد کی 66 وارداتیں ہوچکی ہیں لیکن ان میں سے کسی بھی واردات کے ملزم کو ابھی تک کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جاسکا ہے۔ اس سلسلے کی تازہ واردات ہریانہ کے بلبھ گڑھ میں رہنے والے کمسن طالب علم حافظ جنید کے ساتھ ہوئی تھی جسے گائے کا گوشت کھانے کا طعنہ دے کر انتہائی سفاکی سے ایک ریلوے اسٹیشن پر پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ جنید کے قاتلوں کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا جاسکا ہے اور جو لوگ شبہ میں گرفتار کیے گئے تھے انہیں بے قصور قرار دے کر چھوڑ دیا گیا ہے۔



پہلو خان قتل معاملے نے بھی اخلاق اور جنید جیسی شہرت حاصل کی تھی اور اُمید تھی کہ راجستھان پولیس مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائے گی کیوں کہ پہلو خان کے معاملے میں پولیس کے پاس ان کے نزاعی بیان کی صورت میں ایک ٹھوس ثبوت موجود تھا لیکن یہ ثبوت بھی پہلو خان کے کام نہیں آسکا اور جن لوگوں کے نام پہلو خان نے اپنے قاتل کے طور پر بیان کیے تھے انہیں پولیس نے کلین چٹ دے دی۔ راجستھان کے الور ضلع کے بہروڑ گاؤں میں گزشتہ یکم اپریل کو ہوئے پہلو خان کے سفاکانہ قتل کے معاملے میں 6 نامزد کلیدی ملزمان کو کلین چٹ دیتے وقت پولیس کو ذرا بھی شرم نہیں آئی۔ پہلو خان کا تعلق میوات کے نوح علاقے سے تھا جہاں میو سماج کا کہنا ہے کہ انتظامیہ پر ملزمان کو بچانے کے لیے اوپر سے دباؤ ڈالا جارہا تھا۔ میو سماج نے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ جانے کی تیاری شروع کردی ہے۔ سی آئی ڈی کرائم برانچ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل پنکج کمار سنگھ نے کہا ہے کہ ملزمان کو کلین چٹ دراصل عینی شاہدین کے بیان، تصاویر اور موبائل فون کی لوکیشن کی بنیاد پر دی گئی ہے۔ جن 6 ملزمان کو کلین چٹ ملی ہے ان میں سدھیر یادو، حکم چندیادو، اوم یادو، نوتن شرما، راہل سینی اور جگپال یادو شامل ہیں۔ یہ سبھی لوگ سنگھ پریوار سے وابستہ ہیں اور یہی وابستگی ان کی رہائی میں مدد گار ثابت ہوئی ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ مقتول کے نزاعی بیان کی ویڈیو ریکارڈنگ ہونے کے باوجود پولیس نے دیگر کمزور ذرائع اور نامعلوم عینی شاہدین کے بیان پر یقین کیا۔ ان ملزمان کے پہلو خان کے قتل میں ملوث ہونے کا سب سے بڑا گواہ خود مقتول کا بیٹا محمد ارشاد ہے جو اپنے باپ کے ساتھ موقع پر موجود تھا اور جسے حملہ آوروں نے بری طرح زخمی کردیا تھا۔ لیکن پولیس نے ارشاد کے بیان کو بھی اس قابل نہیں سمجھا کہ ملزمان کے خلاف مضبوط مقدمہ تیار کیا جاتا۔ ارشاد نے پولیس کی کارروائی کو فریب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا خاندان آخری سانس تک انصاف کے لیے لڑے گا۔ ارشاد نے کہا کہ میں نے خود ملزمان کے نام حملے کے وقت ایک دوسرے کے منہ سے سنے تھے، اس کے باوجود ان کو کیسے کلین چٹ مل گئی۔



پہلو خان کا قتل درندگی اور ظلم کی انتہائی سنگین واردات تھی جس نے پورے ملک میں سنسنی پھیلادی تھی لیکن راجستھان سرکار شروع سے ہی اس معاملے کی لیپا پوتی کررہی تھی اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہی تھی۔ اس معاملے کی تحقیقات میں بھی حد درجہ لاپروائی برتی گئی۔ یکم اپریل کو پہلو خان پر حملہ کیا گیا اور 3 اپریل کو ایک مقامی ہسپتال میں ان کی موت ہوگئی۔ اس معاملے کی سنگینی اور ملک گیر احتجاج کے باوجود اس کی تحقیقات ریاستی سطح کی کسی ایجنسی یا ٹاسک فورس کو سونپنے کے بجائے بہروڑ کے ایس ایچ او کو سونپ دی گئی اور اس کے بعد الور کے ڈی ایس پی کو تحقیقات سونپی گئی۔ بعدازاں 11 مئی کو تحقیقات میں شریک کلیدی افسر کا تبادلہ کردیا گیا۔ جولائی میں یہ مقدمہ سی آئی ڈی کرائم برانچ کو سونپا گیا۔ اس دوران چار مرتبہ تحقیقاتی افسر کا تبادلہ ہوا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس معاملے میں صوبائی حکومت کتنی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہی تھی۔ کمیونسٹ پارٹی پولٹ بیورو کی رکن کویتا کرشنن نے ملزمان کو کلین چٹ دیے جانے پر حیرت کا اظہار تو کیا لیکن یہ بھی کہا کہ اس بات کا اندیشہ پہلے ہی سے موجود تھا کیوں کہ راجستھان کے وزیر داخلہ اور دیگر ریاستی وزیر تحقیقات شروع ہونے سے قبل ہی ملزمان کو کلین چٹ دلوانے کی کوششیں کررہے تھے۔ سماجی کارکن اور سبکدوش آئی اے ایس آفیسر ہرش مندر کا بھی کہنا ہے کہ ملک میں ہجومی تشدد کے ہر کیس میں پولیس ملزمان کو بچانے کا کام ہی انجام دیتی ہے۔ ہرش مندر نے پہلو خان کے قاتلوں کو کلین چٹ دیے جانے کے اگلے روز اس مقام پر دھرنا دیا جہاں پہلو خان کو قتل کیا گیا تھا۔
گؤر کشا کے نام پر سنگھ پریوار کے لوگوں کی درندگی سے پورے ملک میں دہشت کا ماحول ہے اور حکومت نے اس قسم کی وحشیانہ وارداتوں کو روکنے کے لیے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں کیا۔