حکومت کا عوام پر جان لیوا حملہ

488

وفاقی حکومت نے بجٹ کے صرف 4 ماہ بعد ایک اور بجٹ پیش کردیا جسے عموماً منی بجٹ کہاجاتا ہے۔ ظلم کی انتہا ہے کہ کھانے پینے سمیت ہزاروں اشیا پر 80 فی صد تک نئے ٹیکس عاید کردیے ہیں جس سے مہنگائی کا ایک ایسا طوفان آئے گا جس میں پہلے سے غربت کی چکی میں پسے ہوئے عوام کا سانس لینا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ گہرے زخموں پر نمک نہیں مرچیں چھڑکتے ہوئے یہ بھی فرمادیا گیا کہ عوام متاثر نہیں ہوں گے۔ حکمرانوں نے شرم و لحاظ تو کب کا ترک کردیا۔ عدالت سے نا اہل قرار دیے گئے میاں نواز شریف کو یاد بھی نہیں رہا ہوگا کہ 2013ء کی انتخابی مہم میں ان کی طرف سے بڑے بڑے اشتہارات دیے گئے تھے اور ہر تقریر میں فرماتے تھے کہ حکومت میں آکر ہم اشیائے صرف کی قیمتیں 1999ء کی سطح پر واپس لائیں گے۔ یہ وہ سال ہے جب فوج نے وزیراعظم نواز شریف کا تختہ الٹا تھا اور وہ ایک سمجھوتا کرکے جلاوطن ہوگئے تھے۔ حکومت تو اس وقت بھی بالواسطہ طور پر نواز شریف ہی کی ہے اور وہ حکمران جماعت کے صدر ہیں۔ کسی سے کہہ کر 1999ء کا ریکارڈ نکلوائیں یا اپنے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو اس کام پر لگائیں کہ اس وقت اشیائے صرف کی قیمیں کیا تھیں اور اب کیا ہیں۔ توقع تو نہیں لیکن شاید کسی کو شرم آجائے۔ سرکاری اعلان کے مطابق پولٹری مصنوعات، مچھلی، دودھ، کریم، دہی، مکھن، ڈیری مصنوعات، پنیر، شہد، گندم، مکئی، چینی، سبزیاں، پھل، خشک میوہ جات، منرل واٹر، آئس کریم اور پالتو جانوروں کی خوراک، ان سب پر ٹیکس لگاکر قیمیں بڑھادی گئیں۔ شاید اس طرح قیمتیں 1999ء کی سطح پر آجائیں گی۔ یہ تمام اشیا وہ ہیں جن کا تعلق عام آدمی سے ہے۔ ان کے علاوہ موبائل فونز ، گاڑیاں، کھیلوں اور میک اپ کا سامان، زیورات، گھڑیاں وغیرہ عام آدمی کا مسئلہ نہیں ہے۔ بجلی کی گھریلو مصنوعات اور اسٹیل کی قیمتیں بھی بڑھادی گئیں۔ حکومت کا موقف ہے کہ یہ اقدام تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے اٹھایا گیا اور اس سے در آمدات کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی برآمدات کے مقابلے میں در آمدات کئی گنا زیادہ ہیں۔ پاکستان زرعی ملک کہلاتا ہے اس کے باوجود ٹماٹر، لہسن، پیاز، ادرک سمیت سبزیاں اور پھل در آمد کیے جارہے ہیں۔



حیرت ہے کہ دہی، مکھن، دودھ، کریم، شہد وغیرہ بھی در آمد کیے جارہے ہیں۔ منرل واٹر بھی باہر سے آرہاہے لیکن کس کے لیے؟ عام آدمی کو تو زہریلا اور آلودہ پانی پلایا جارہاہے۔ ظاہر ہے کہ حکمران طبقہ اور اہل ثروت ہی اس پانی کو پیتے ہوں گے اور انہیں اس سے کیا غرض کہ عوام کیا پیتے ہیں اور ان کو پانی ملتا بھی ہے یا نہیں۔ منرل واٹر اور آئس کریم جیسی اشیا پر ٹیکس عاید کرنے کے بجائے ان کی در آمد پر مکمل پابندی لگادینی چاہیے۔ پاکستان میں چینی تیار کرنے کے متعدد کارخانے ہیں جن میں سے بیشتر حکمران طبقے یا بڑے سیاست دانوں کے پاس ہیں۔ اس کے باوجود چینی کی در آمد باعث شرم ہے۔ گندم کی فصل بہت اچھی ہوئی ہے اور خیال تھا کہ اسے برآمد کیاجاسکے گا لیکن اب اسے در آمد کیا جارہاہے اور اس پر ریگولیٹری ڈیوٹی عاید کرنے سے گندم بھی مہنگی ہوگی جب کہ عام آدمی کی خوراک کا بڑا ذریعہ روٹی ہے اور اب اس کے منہ کا نوالہ بھی چھینا جارہاہے۔ غریب آدمی کا گزارہ صرف نعروں اور وعدوں پر ہے وہ خواہ روٹی، کپڑا فراہم کرنے کا وعدہ ہو یا عوام سے ہمدردی جتانے اور عوامی حکومت کہلانے کا دعویٰ۔ جو چیزیں پاکستان میں بنتی ہی نہیں ہیں ان پر ریگولیٹری ڈیوٹی عاید کی گئی ہے۔ مثلاً پرانی گاڑیوں کی در آمد پر 60 فی صد ٹیکس لگایا گیا ہے، نئی گاڑیوں کی در آمد پر ٹیکس ضرور لگنا چاہیے لیکن پرانی گاڑیوں کو سستا ہونا چاہیے۔ بسیں اور ہیوی ٹرک اور مشینری کو بھی استثنا ملنا چاہیے تھا۔ حکومتی اقدام کے نتیجے میں عام آدمی کی ضرورت گندم، چینی، سبزیاں وغیرہ مزید مہنگی ہوجائیں گی۔ مجموعی طور پر 240 اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ حکومت کو شاید یاد نہیں رہا کہ اسی سال جون میں پیش کردہ بجٹ میں ان میں سے بیشتر اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی عاید کرچکی ہے اور اب مسلم لیگ ن کی حکومت نے چند ماہ بعد ہی دوبارہ بھاری ڈیوٹی عاید کردی ہے۔ منی بجٹ پیش کرنے کا شوق ہر حکومت نے پورا کیا ہے چنانچہ اب بجٹ کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہی، ورنہ بجٹ ایک سال میں ایک بار آتا تھا اور سب کو معلوم ہوجاتا تھا کہ ایک سال کے لیے کیا بڑھا اور کیا گھٹا۔ عملاً تو اب ہر ماہ قیمتوں میں رد و بدل ہورہاہے۔ گندم کی قیمت میں گزشتہ ماہ ہی خاموشی سے تین روپے فی کلو کا اضافہ کردیاگیا۔ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ گندم کی حفاظت کا مناسب بندوبست نہ ہونے اور گوداموں کی تعداد ناکافی ہونے کی وجہ سے گندم ضایع بھی ہورہی ہے۔اسلام آباد چیمبر آف کامرس کے سابق صدر عاطف اکرام شیخ کے مطابق اضافی گندم سے سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ فاضل گندم کو برآمد کرنے کی کوششیں بھی ناکام ہو گئی ہیں کیونکہ اس کی قیمت بین الاقوامی منڈی میں دستیاب گندم سے دگنی ہے ملکی تاریخ میں پہلی بار گندم کے ا سٹاک نوے لاکھ ٹن تک پہنچ گئے ہیں جس سے حکومت کا نقصان بڑھے گا اس لیے اس کی پیداوار محدود کی جائے۔ پاکستان میں گندم کی سالانہ کھپت دو کروڑ تیس لاکھ ٹن سالانہ ہے جبکہ پیداوار ڈھائی کروڑ ٹن سے زیادہ ہے۔



جبکہ گزشتہ کئی سال سے اچھی فصل ہونے کی وجہ سے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے پاس موجوداسٹاک بڑھ گئے ہیں جنھیں سنبھالنے پر سالانہ اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ اس وقت بھی نصف گندم کھلے آسمان تلے پڑی ہوئی ہے جو موسم کے رحم و کرم پر ہے۔انھوں نے کہا کہ اگلی فصل بھی سرپلس پیداوار کا سبب بنے گی جس سے اضافی ا سٹاک حکومت کے مسائل ، اخراجات اور گندم کا زیاں مزید بڑھ جائے گا۔حکومت نے بھاری سبسڈی دے کر کچھ گندم برآمد کروائی تھی مگر برآمد کنندگان کو اس کے ریفنڈ ادا نہیں کیے گئے ہیں جس سے برآمدات میں مزید مشکلات حائل ہو گئی ہیں۔ ہر سال بھاری مقدار میں گندم ضائع ہو جاتی ہے مگر عوام کو پھر بھی مہنگی گندم خریدنا پڑتی ہے جو حیران کن ہے۔ رپورٹ کے مطابق در آمدی اشیا پر نئے ٹیکس عاید کرنے سے حکومت کو 2 ارب ڈالر کی بچت ہوگی لیکن بات صرف بچت کی نہیں ہے بلکہ عوام پر یہ زیادتی بین الاقوامی سود خوروں کے حکم پر کی گئی ہے۔ پاکستان کو فوری طور پر 1ء1 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ اسی ماہ ادا کرنا ہے۔ قرض دینے والے عالمی سود خوروں کا طریقہ واردات یہ ہے کہ قرض دینے سے پہلے یہ ضرور معلوم کرتے ہیں کہ واپسی کس طرح کی جائے گی۔ انہیں یہ بھی علم ہوتا ہے کہ کس پر کتنے قرضے پہلے ہی چڑھے ہوئے ہیں۔ اپنے قرض کی واپسی کی ضمانت کے طور پر وہ کچھ اثاثے رہن رکھ لیتے ہیں۔ پاکستان پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کی املاک کے علاوہ تمام موٹر ویز اور ہائی ویز بھی گروی رکھ چکا ہے۔ شاہراہوں سے ملنے والا ٹول ٹیکس سود خوروں کے پاس جارہاہے جو دو روپے فی کلو میٹر عاید کیا گیا ہے۔ اب پاکستان کے پاس گروی رکھنے کو کیا رہ گیا ہے؟دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ذرائع آمدن بڑھانے پر زور دیا جاتا ہے اور اس کے طریقے بھی تجویز کردیے جاتے ہیں جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ فلاں فلاں اشیا پر ٹیکس لگاکر عوام کا خون نچوڑو۔ اور یہی ہوا ہے۔ پاکستان زبردست دباؤ میں ہے اور خسارہ بڑھتا جارہاہے جو عوام میں سے وصول کیا جائے گا وہ زندہ رہیں یا مریں۔