ہڈیوں اور جوڑوں کا مرض خاموش قاتل ہے‘ ڈاکٹر سید محفوظ عالم

2007

انٹرویو: سلمان علی
گٹھیا ایک عام بیماری ہے، کراچی میں اس کے شکار افراد کی تعداد تقریباً 2 لاکھ ہے اور ماہر معالج 10 سے زیادہ نہیں ہوں گے
باقاعدہ تربیت یافتہ ڈاکٹرز ہی آسٹروپروسس کی شناخت کر سکتے ہیں‘ خطرناک مرض کے عالمی دن کے موقع پر ملک کے معروف ریوماٹولوجسٹ سے خصوصی گفتگو

بے شک اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے کہ ’ہم نے انسان کو بہترین نک سُک سے پیدا کیا‘۔ انسانی تخلیق پر غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ ہڈیوں کا کردار ہمارے جسم میں اتنا کلیدی ہے کہ ہم جو اتنا مزے سے چلتے پھرتے ہیں، سوتے جاگتے ، کھیلتے کودتے ہیں ، کھاتے پیتے اور ہنستے روتے ہیں حتیٰ کہ ہماراصرف کھڑا ہونا بھی ہمارے جسم میں موجود ہڈی کی بدولت ہوتاہے ۔ ان سب حرکات میں ہمارے جسم کی 360ہڈیاں اور جوڑوں کا استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہردو ہڈیوں کے درمیان ایک جوڑ تخلیق کیا تاکہ ہم بخوبی حرکت کرسکیںاور ان جوڑوں سے کئی نازک جسمانی اعضا کو تحفظ بھی مل سکے۔اسی باعث انسانی ڈھانچے میں جوڑوں کی بڑی اہمیت ہے۔ ایک جوڑ میں بھی خرابی جنم لے، تو تکلیف کے مارے ہمارا بْرا حال ہو جاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے امسال 20 اکتوبر کو عالمی یو م امراض جوڑ و مفاصل کے طور پر مختص کیا ہے۔ اس کا مقصد اس مرض سے متعلق آگہی اور علاج کے ساتھ بچاؤ کی تدابیر سے بھی لوگوں کو آگاہ کرنا ہے۔ اس ضمن میں دنیا بھر میں ڈاکٹروں کی تنظیمیں مختلف سرگرمیاں منعقد کرتی ہیں۔ روزنامہ جسارت نے بھی اپنے قارئین کے لیے اس مرض سے متعلق آگہی کے لیے اس دن کی مناسبت سے خصوصی ایڈیشن شائع کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ ہماری کوشش ہو گی کہ اس کے ذریعے آ پ تک مفصل و جامع معلومات پہنچا سکیں ۔
اس مرض کے معالج کے لیے انگریزی کی اصطلاح جو استعمال ہوتی ہے وہ Rheumatologistریوماٹولو جسٹ کی ہے جس کا اردو ترجمہ ’ ماہر امراض جوڑ و مفاصل‘کیا جاتاہے۔ عوام کے سمجھنے کے لیے ہم اسے گٹھیا، جوڑوں و پٹھوں کے امراض کے معالج کے طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ اس دن کے حوالے سے اور اس بیماری سے متعلق آگہی کے لیے آج ہم ملک کے معروف ریوماٹولوجسٹ ڈاکٹر سید محفوظ عالم سے بات کریں گے۔ ڈاکٹر سید محفوظ عالم گزشتہ 2 دہائیوں سے کراچی میں لیاقت نیشنل اسپتال میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور اس مرض کے علاج کے حوالے سے الحمدللہ پورے ملک میں اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہمیں آج وقت دیا ۔



سوال : انسانی جسم کے اِن اعضا سے متعلق بیماریوں سے آپ کیسے متعارف ہوئے اور اس شعبے میں آنے کا تجربہ کیسارہا؟
ڈاکٹر محفوظ: ویسے تو کراچی سے ہی میں نے ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کی، ابتدائی پریکٹس کا آغاز یہیں سے کیا ۔ایم بی بی ایس مکمل کرنے کے بعد1993ء میں اسپیشلائزیشن کے لیے امریکا جانا ہوا۔ اُس وقت تو میرا رادہ ’انٹرنل میڈیسن ‘میں اسپیشلائزیشن کا تھا مگر وہاں جا کر مجھے اس شعبے سے تعارف حاصل ہوا ۔ایک ریوماٹولوجسٹ تقریباً 100 کے قریب ہڈیوں، جوڑ و مفاصل کے امراض کے علاج کا علم حاصل کرتا ہے۔اس کی وسعت اور مرض کی اہمیت دیکھ کر میں نے اس فیلڈ میں اسپیشلائزیشن کا فیصلہ کیا۔پاکستان میں اُس وقت ریوماٹولوجی تقریباً نا پید تھی، اُس وقت 18 کروڑ کی آبادی کے لیے پورے ملک میں صرف 3 ہی ریوماٹولوجسٹ تھے ، جن میں سے ایک کراچی میں، ایک لاہور اور ایک اسلام آباد میں تھا۔ جب مجھے اندازہ ہوا کہ یہ امراض اتنے عام ہیں مگر اِن کے معالج کی تعداد ضرورت کے مطابق بہت کم ہے تو اللہ تعالیٰ نے دل میں بات ڈالی کہ یہی ضرورت ہے ، چنانچہ خدمت انسانی کے جذبے کے تحت کسی اور فیلڈ میں جانے کے بجائے میں نے ریوماٹولوجی کو ہدف بنایا اور اسی شعبہ میں انسانی خدمت کا فیصلہ کیا۔ یوں انسانی جسم کی ہڈیوں ، پٹھوں اور جوڑوں سے متعلق بیماریوں کا میں گزشتہ 20 برس سے علاج کررہا ہوں۔
سوال : جیسا آپ نے بتایا کہ پاکستان میں تو ان امراض کے ڈاکٹر نہ ہونے کے برابر تھے تو یہاں واپس آنے پر کیا ماحول تھا؟
ڈاکٹر محفوظ :تعلیم مکمل کر کے جب میں واپس کراچی آیا تو اُس وقت پاکستان کامیں پہلا امریکن بورڈ سرٹیفائیڈ ریوماٹولوجسٹ قرار پایا۔ یہاں آیا تو اندازہ ہوا کہ بیماری عام توہے مگر اس حوالے سے لوگوں کو بالکل آگہی نہیں تھی ، کسی کو بتاؤ تو سمجھ ہی نہیں آتا کہ Rheumatologistکیا ہے ۔کوئی ڈرما ٹولوجسٹ ( ماہر امراض جلد ، بال )یا کوئی آرتھو پیڈک (ہڈیوں کا سرجن) سمجھتا ، پھر انہیں وقت لگا کر سمجھانا پڑتا تھا کہ جناب یہ وہ ڈاکٹر ہوتا ہے جو ہڈیوں ، پٹھوں اور جوڑوں کی اندرونی بیماریوں کو دیکھتا ہے کیونکہ اس وقت ہڈیوں کا بھربھرا پن بھی سمجھانا مشکل تھا۔ بہر حال گزرتے وقت کے ساتھ اب یہ آگہی قدرے بڑھ گئی ہے۔ اب کالج آف فزیشن و سرجن نے بھی کوئی 7 سال اس فیلڈ میں ایف سی پی ایس شروع کر دیا ہے۔ اب ہم سال میں 2 مرتبہ اس کے امتحان بھی لیتے ہیں ۔پاکستان میں 4 مراکز قائم ہو چکے ہیں۔ جہاں اس کی تربیت بھی شروع ہو چکی ہے ۔ان 17 برس میں جب سے میں پاکستان میں ہوں اس شعبے نے خاصی ترقی کی ہے ۔ آئندہ بھی امید کی جاتی ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اس وقت تقریباً 30 ممالک میں ریوماٹولوجسٹ موجود ہیں گوکہ یہ تعداد ضرورت سے کم ہے تاہم اس میں بتدریج اضافہ ہونا شروع ہو چکا ہے۔ اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ 3 لاکھ کی آبادی کے لیے کم از کم ایک ریوماٹولوجسٹ ہونا چاہیے۔ لیاقت نیشنل اسپتال میں پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ بھی شروع کی گئی ہے ۔ ایک ایف سی پی ایس ریوماٹولوجسٹ جناح اسپتال میں بھی ہم نے تربیت دے کر بھیجا ہے۔ انہوں نے ہی سندھ کا پہلا ریوماٹولوجی کا شعبہ جناح اسپتال میں شرو ع کیا ہے۔ بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا میں تو سرے سے ان امراض کے علاج کا کوئی ڈاکٹر موجود ہی نہیں ۔



سوال : عالمی ادارہ صحت نے 20اکتوبر کا دن اوسٹریو پروسس کے نام کیا ہے ۔ہم چاہیںگے کہ آپ قارئین کو آسٹریوپروسس کی بیماری کے بارے میں کچھ تفصیلات بتائیں؟
ڈاکٹر محفوظ : آسٹریو پروسس ’ہڈیوں میں بھر بھرا پن ‘کا مرض کہلاتا ہے ۔ خالق کائنات نے اس طرح انسان کو تخلیق کیا ہے کہ یہ خود ایک عظیم معجزہ ہے ۔ سب کا اپنا الگ الگ کام ہوتا ہے انہی میں ہڈی اور جوڑوں کا معاملہ بھی بڑاہی اہم ہے کیونکہ ہم بنیادی طور پر ان ہڈیوں اور جوڑوں کی مدد سے اپنی ہر حرکت انجام دیتے ہیں ۔ہماری ہڈیوں میں پروٹین، کیلشیم کے نمکیات اور دیگرمعدنیات شامل ہوتے ہیں۔ ہر ہڈی ایک موٹے بیرونی خول کے ایک مضبوط اندرونی جال سے مل کر بنی ہوتی ہے، جبکہ ہڈی کے درمیانی حصے میںخون اور ہڈیوں کا گودا موجود ہوتا ہے۔ جو ہڈیوں کو اپنی شکل میں قائم رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ جب یہ گودا پتلا ہو جاتا ہے تو ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں اور آسانی سے ٹوٹ سکتی ہیں۔اسے ہم ہڈیوں کو ’بھر بھرا‘‘ہوجانا بھی کہتے ہیں۔ آسٹریو پروسس کو ’خاموش قاتل ‘بھی کہا جاتا ہے ۔ ساری دنیامیں یہ ایک عام بیماری بن چکی ہے ۔ خاص بات یہ ہے کہ اس بیماری میںکوئی درد یا تکلیف ظاہر نہیں ہوتی جو کچھ ہوتاہے وہ مرض کے خراب ہونے جیسے ہڈی ٹوٹنے کے بعد ہی ہوتا ہے۔
سوال : مرض کے حوالے سے آپ کا کیا تجربہ رہا، مریضوں کے حوالے سے کوئی تجزیہ بتائیں؟
ڈاکٹر محفوظ: آسٹیوپروسس کا مرض میرے بلکہ دنیا بھر کی تحقیق کے مطابق خواتین میں سب سے عام ہے۔ خصوصاً اُن خواتین کی جن کی عمر 40سال سے زائد ہو۔ تاہم، مرد، نوجوان خواتین، بچے اور حاملہ خواتین بھی اس بیماری سے متاثر ہو سکتی ہیں۔پاکستان کے حوالے سے بات کروں تو آپ دیکھیں کہ زیادہ تر خواتین ہمارے معاشرے کا آج بھی پسماندہ طبقہ ہیں ۔خصوصاً گاؤں دیہات میں اگر آپ چلے جائیں تو آپ دیکھیں گے (باقی صفحہ 09پر)
کہ ہمارے گاؤں دیہات میں آ ج بھی بیٹی ہو یا بیوی ، سب کے ساتھ ایک قسم کا استیصال کیا جاتا ہے ۔ حتیٰ کہ جو کھانا بیٹے کو دیتے ہیں وہ بیٹی کو نہیں ملتا۔ جن بچیوں نے اپنے بچپن میں ڈیری پروڈکٹس کاکثرت سے استعمال نہیں کیا ہوتا تو مناسب کیلشیم نہ ملنے پر وہ آگے چل کر شادی و بچوں کے بعد اس بیماری کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اب گاؤں دیہات میں جہاں عمومی بیماریوں کے علاج کی سہولت ناپید ہوتی ہو وہاں کون بغیر کسی درد و تکلیف کے کسی کو دور دراز کے کسی ڈاکٹر کے پاس لے جائے گا۔باقی شہروں میں یہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنی مرضی سے یا کسی اور لا علم شخص کے مشورے پر یا تو کسی اتائی ڈاکٹر کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ، کسی پہلوان ، کسی جراح ، کسی حکیم یا اس جیسے کسی اور ٹوٹکے نما علاج پر چلے جاتے ہیں جو درست تشخیص نہ ہونے کے سبب مرض کو بگاڑ دیتے ہیں۔ بہت سارے کم پریکٹس والے جنرل پریکٹیشنر جنہیں اس مرض اور اس کے علاج کی معلومات نہیں ہوتیں اکثر وہ بھی درست سمت رہنمائی نہیں کر پاتے نتیجتاً مرض کی شدت اور معذوری بڑھتی چلی جاتی ہے ۔
سوال : آپ نے بتایا کہ یہ خاموش مرض ہے تو یہ بتائیں کہ اس بیماری کی تشخیص کیسے ہوتی ہے ؟
ڈاکٹر محفوظ :ہڈیوں اور جوڑوں کے امراض دنیا بھر میں خاصے عام ہیںلیکن ان کے بارے میں چونکہ یہاں زیادہ آگہی نہیں ہے اس لیے لوگ اس سے بچاؤ کے بارے میں اتنا نہیں جانتے۔ اِن سے متعلق امراض میں موت واقع ہونے کا اندیشہ کم ہوتا ہے ، مگر معذوری کا امکان زیادہ ہوتاہے کیونکہ اِن کا تعلق آپ کے جسمانی تحرک (Activeness)سے ہوتاہے ۔ آپ کی حرکات ، کام کرنے کی صلاحیت سے ، اس لیے آپ اس بیماری میں موت کے بجائے معذوری کا سفر کرتے ہیں۔ اس بیماری کوخاموش قاتل بھی اس لیے کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں اس مرض کی تشخیص ایک بہت بڑی طبی مہارت میں کمی کی مانند ہے کیونکہ اس مرض میں کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور جب کوئی تکلیف نہیں ہوتی تو کوئی ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتا جب جاتا ہی نہیں ہے تو کوئی ٹیسٹ ڈاکٹر نہیں کراتا اور نتیجتاً علاج بروقت تشخیص نہیں ہوپاتا۔ اس کا حل یہ ہے کہ ڈاکٹر خود مریض کو پک کرے پھر اس کا ٹیسٹ کرائے اور پھر اس کا درست علاج ہو ۔یہ کام جنرل فزیشن بھی کر سکتا ہے اگر وہ اس حوالے سے کچھ معلومات یا تربیت رکھتا ہو۔اب میں ایک مثال دیتا ہوں ایک خاتون جن کی عمر 70 سال ہے اور ان کا وزن بھی کم ہے ،ہڈیاں ان کی کمزور ہیں۔ تکلیف ان کو کوئی نہیں ہے ۔لیکن جب وہ گریں گی تو اِن کی کلائی یاکوئی دوسری ہڈی لازمی ٹوٹے گی ، پھر اسے لے کر ڈاکٹر کے پاس جائیں گے، وہاں ڈاکٹر تشخیص کرکے بتائے گا کہ آپ کو تو آسٹریو پروسس جس کی وجہ سے ہڈی ٹوٹی ہے ۔اگلی دفعہ اس کی ہڈی کا فریکچر نہ ہو اس سے بچنے کے لیے آپ کو ڈاکٹر ادویات شروع کرواتے ہیں۔تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔تو ہدف یہ ہونا چاہیے کہ آسٹریو پروسس فریکچر ہونے سے پہلے مریض کی ہڈیوں کو مضبوط کیا جائے تاکہ وہ نہ ٹوٹیں۔ اگر ایسے مریضوں کی پہلے تشخیص کر لی جاتی تو شایدمرض کو قابوکر لیا جاتا۔
سوال: یہ گھٹیا کا مرض بڑا عام ہے ۔ یہ بھی آسٹریو پروسس کی کوئی قسم ہے ؟اس کے علاج کے لیے کیا تدبیر اختیار کی جاتی ہیں؟
ڈاکٹر محفوظ :اس شعبے کی سب سے عام بیماری گٹھیا کا مرض ہے۔ ساری دنیامیں اس وقت ایک محتاط مطالعہ کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ ایک فیصد آباد ی اس مرض ( گٹھیا)کا شکارہوتی ہے۔ اگر کراچی کی آبادی کو 2 کروڑ شمار کر لیں تو اس حساب سے کراچی میں اس وقت کم ازکم اس ایک بیماری کے 2 لاکھ مریضوں کا تخمینہ لگایا گیا ہے، مگر اس وقت کراچی میں اس مرض کے 10 سے زائد تربیت یافتہ ماہرین موجود نہیں۔ یہ صرف میں آسٹریو پروسس کی ایک بیماری کے بارے میں بتا رہا ہوں، باقی بیماریاں الگ ہیں ۔اس مرض میں مبتلا شخص کویہ بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اس مرض کے علاج سے مریض نارمل زندگی گزار سکتا ہے۔ یہ غلط خیال ہے کہ اگر کسی کو گٹھیا کا مرض ہوگیا ہے تو آپ ساری زندگی بیمارہی رہیں گے یا ساری عمر دوائی کھائیں گے اور کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتے۔
سوال : کیا اِس مرض کا علاج بہت مہنگا ہے ؟
ڈاکٹر محفوظ :ایسا نہیں کہہ سکتے کیونکہ ایک وقت تھا دوائیاں کافی مہنگی ہوتی تھیں، بہت ساری ادویات آگئی ہیں ، لوکل کمپنیز بھی تیار کر رہی ہیں جن کی قیمت بہت مناسب ہے ۔ مگر مسئلہ وہی ہے کہ مریض کو ہڈی توٹنے سے قبل تو پتا ہی نہیں ہوتا ، تکلیف نہیں ہو تو علاج کیوں کرے ۔ 2 ہزار کی گولی ہو یا 5 رو پے کی، وہ کہتا ہے کیوں لوں میں دوائی جب مجھے کوئی تکلیف ہی نہیں ۔البتہ جب وہ ہڈی تڑوا کر آتا ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے پھر بھی کوشش کی جاتی ہے کہ مزید ہڈیوں کو بچایا جا سکے۔
سوال : کیا صرف کیلشیم کی کمی ہی اس مرض کی بنیادی وجہ ہے اور اس کی دیگر کیا پیچیدگیاں ہوتی ہیں ؟
ڈاکٹر محفوظ :عام طور پر جب خواتین کے ’ایام‘ ختم ہوجاتے ہیں، تو اس میں آسٹریو پروسس مرض کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔اس کے علاوہ مختلف ادویات ہیں جس سے یہ مرض ہوجاتا ہے۔کچھ امراض کی ادویات کے سائیڈ ایفکٹ کے طور پر بھی یہ مرض ہوتا ہے۔تو ایسے تمام مریضوں کو جن میں آسٹریو پروسس مرض کا امکان زیادہ ہوان کے بارے میں ڈاکٹرز ہی بتاسکتے ہیں۔ان میں مرض کی تشخیص کرکے مرض کا علاج شروع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو اس کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ فریکچرجب ہوتا ہے خاص طور پر جب بوڑھی خواتین کا فریکچر کا آپریشن ہوتا ہے یا سرجری ہوتی ہے اس کے بعد ان کی زندگی کے کم ہونے کے اور دوبارہ بستر سے اٹھنے کے امکان کم ہوجاتے ہیں۔ آسٹریو پروسس عام طور پر ریڑھ کی ہڈی کو زیادہ متاثر کرتا ہے۔ریڑھ کی ہڈی کے مہرے ٹوٹ جاتے ہیں۔اس کے علاوہ کولہے اور کلائی کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہیں۔
آسٹریو پروسس کے باعث ہونے والے تمام اقسام کے فریکچرز میں کولہے کا فریکچر زیادہ تباہ کن ہے۔ ایسی صورت میں طویل علالت سہنی پڑتی ہے جو عموماً 12 سے 20 فیصد مریضوں کی موت کا سبب بھی بنتی ہے۔ جو بچے رہتے ہیں ان کی نصف تعداد کی مسلسل دیکھ بھال ضروری ہوتی ہے۔ یہ 3 بنیادی ہڈیاں ہیں باقی پسلیوں کی ہڈیاں بھی ٹوٹ سکتی ہیںاور دوسری ہڈیاں بھی اس مرض کی وجہ سے ٹوٹ سکتی ہیں۔ عام طور پر ریڑھ کی ہڈی کے مہرے بغیر چوٹ کے خود بخود ٹوٹ جاتے ہیں ۔وہ صرف ایکسرے کروانے پر پتا چلتا ہے۔جو بزرگ خواتین ہوتی ہیں ان کا قد چھوٹا ہوجاتا ہے اور وہ جھک جاتی ہیں۔اگر چھوٹی سی بھی انجری ہوتو نارمل ریڑھ کی ہڈی آسانی سے نہیں ٹوٹے گی لیکن آسٹریو پروسس ہڈی آسانی سے ٹوٹ جائے گی۔خواتین میں اگر کسی کے رشتے داروں کو آسٹریو پروسس ہوچکا ہو یا فریکچر ہوچکا ہو تو اس میں آسٹریو پروسس ہونے کا امکان زیادہ ہے۔زیادہ سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ آسٹریو پروسس کا عام طو رپر پتا ہی نہیں چلتا جب تک وہ ٹوٹیں نہیں۔اس کو تو صرف تربیت یافتہ ڈاکٹرز ہی شناخت کرتے ہیں کہ کس میں یہ مرض ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ لہٰذا احتیاط کے طور پر یعنی فریکچر ہونے سے پہلے ان کا ٹیسٹ کروا کر ان کا علاج شروع کردیا جائے ۔
سوال : آپ نے مریض کی پہچان کے لیے اسکریننگ کا ذکر کیا ۔ یہ کیا عمل ہے ؟
ڈاکٹر محفوظ: عام ڈاکٹرز یعنی جنرل فزیشن جن کے پاس سب سے زیادہ عوام کا رجوع ہوتا ہے اس مرض کی تشخیص آسانی سے نہیں کرسکتے۔ اِلّا یہ کہ اُنہوں نے اس سے متعلق پڑھا ہو یا تربیت لی ہو۔ لیکن انہیں چاہیے کہ وہ اسکریننگ کرکے اس کی تشخیص کریں۔ یعنی 10 مریض اگر میں روز دیکھ رہا ہوں جس میں 2 مریض ایسے ہیں جن کی عمر زیادہ ہے ، خواتین ہیں، اور وہ دبلی بھی تھیں تو ان میں اس بات کا امکان ہے کہ ان میں یہ مرض ہو۔تو ڈاکٹر ان کو ایک BDSٹیسٹ لکھ کر دے سکتا ہے۔اس کا ٹیسٹ تمام چھوٹے بڑے اسپتالوں میں موجود ہے۔ ڈاکٹرز اور مریض میں یہ معلومات ہونا ضروری ہے کہ یہ ایک مرض ہے اور تکلیف اس میں نہیں ہوتی جب تک کہ کوئی فریکچر نہ ہوجائے۔لہٰذا اس مرض میں مبتلا لوگوں کو بروقت ان کی تشخیص کرکے ان کا علاج کیا جائے تاکہ وہ فریکچر سے بچ سکیں۔
سوال : قارئین کی آگہی کے لیے کچھ عمومی یا غذائی احتیاطی تدابیر بتائیں؟
ڈاکٹر محفوظ: ایسی خواتین جن کی عمر ابھی زیادہ نہیں ہوئی ہے ،ڈیری پروڈکٹ کا استعمال نہیں کرتیں ان کو کم از کم کیلشیم اور وٹامن سپلیمنٹ استعمال ضرور کرنا چاہیے۔سبزیوں کا استعمال بڑھانا چاہیے۔ 30، 35 سال کے بعد خواتین کو کیلشیم وٹامن سپلیمنٹ لینا چاہیے تاکہ وہ اس مرض سے بچ سکیں۔ وزن بڑھنے سے عام طور پر اس مرض کے مریض کے گھٹنے خراب ہوجاتے ہیں۔ اگر مریض اپنا وزن بڑھنے سے روک لے اور روزانہ ورزش کرے تو بنیادی اصول وہی ہیں جو تمام بیماریوں کے لیے ہیں۔ کولڈ ڈرنکس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ’کیلشیم اسٹیلر‘ ہیں۔ یہ آپ کے جسم میں سے کیلشیم چرا لیتے ہیں۔یہ کاربونیٹکس ڈرنکس کیلشیم کو کم کردیتے ہیں۔ ان کی پیدائش میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ان میں شوگر بہت زیادہ ہوتی ہے۔ چائے کے استعمال میں کمی بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ فرائی کی ہوئی اشیا جس میں غیر معیاری تیل استعمال ہورہا ہے۔ یہ جو فاسٹ فوڈ کلچر متعارف ہوچکا ہی جس میں کیلوریز بہت زیادہ ہوتی ہیں۔یہ بچوں اور بڑوں میں موٹاپے کو بڑھانے کا باعث بنتی ہیں ۔
سوال : عالمی دن کے حوالے سے آپ کیا پیغام ہمارے قارئین کو دینا چاہیں گے ؟
ڈاکٹر محفوظ :اپنی ہڈیوں کے بچاؤ کے لیے یہ ضروری ہے کہ اِن کو مضبوط رکھا جائے۔ کیلشیم اور وٹامن ڈی کا استعمال غذاؤں میں بڑھائیں یا ادویہ کی شکل میں ضروری ہے ۔ دودھ ،دہی اور دودھ کی بنی ہوئی اشیا کا استعمال کثرت سے کیا جائے، تاکہ ان سے آپ کو باقاعدگی سے کیلشیم حاصل ہو سکے۔ چلنے کی عادت ڈالیں اور اپنے جسم کو صبح کی دھوپ کچھ وقت کے لیے ضرور فراہم کریں مستقل بالکل بند گھروں یا دفاتر میں نہ رہیں۔ دھوپ میں وٹامن ڈی شامل ہوتی ہے اور اس دھوپ سے ہڈیوں کو کیلشیم جذب کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ اس لیے تھوڑا وقت باہر صبح کی ابتدائی دھوپ میں گزاریں ، یہ وٹامن ڈی آپ کے جسم میں کھال کے اندر بنتا ہے۔ سورج کی روشنی پڑنے سے اس کی پیدائش زیادہ ہوجاتی ہے۔اگر کوئی دھوپ میں نکلتا ہے اور متوازن غذا استعمال کرتا ہے تو یہ اس کے جسم میں کیلشیم کو زیادہ تیزی سے جذب کرنے میں مدد دیتا ہے۔اس سے آپ کی زندگی میں اور بھی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ہڈیاں اور جوڑ بہتر ہوں گے تو آپ زیادہ متحرک زندگی بسر کرسکیں گے ۔