بغیر رہنمائی کے ورزش معذوری یا موت کو دعوت دینا ہے‘ ڈاکٹر ریاض بیگ چغتائی

786

انٹرویو: جہانگیر سید

ہڈیوں کی نشوونما اور مضبوطی کے لیے وٹامن ڈی بہت ضروری ہے جو کہ سورج کی شعاعوں میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے‘ جناح اسپتال میں کالج آف فزیو تھراپی کے پرنسپل سے خصوصی گفتگو

’’LOVE YOUR BONES ۔ اپنی ہڈیوں سے پیار کریں‘‘۔ جی ہاں یہ موضوع ہے اس سال آسٹیو پراسس یعنی ہڈیوں کے بھر بھرے پن کے حوالے سے منائے جانے والے عالمی دن کا جو عالمی ادارہ صحت کے تحت ہر سال دنیا بھر میں 20 اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔ اسی موقع کی مناسبت سے روزنامہ جسارت نے خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا ہے۔ زیر نظر انٹرویو میں آسٹیوگروپ کی ایک اور مہلک بیماری Arthrites یعنی ہڈیوں کے جوڑوں میں درد اور جھلیوں میں سوزش کے مرض سے متعلق سوالات اٹھائےگئے ہیں۔
ڈاکٹر ریاض بیگ چغتائی 10 برس سے کالج آف فزیو تھراپی جے پی ایم سی ( جناح اسپتال کراچی ) میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہیں۔ 1986ء میں فیڈرل پبلک کمیشن کا امتحان پاس کرکے کالج سے وابستہ ہوئے۔ پچھلے 32 سال سے فزیو تھراپی کالج میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ ان کے ان گنت شاگرد استاد کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔ گویا آپ کو طویل عرصے سے کالج میں Teacher of the Teachers یعنی استادوں کے استاد ہونے کا مقام حاصل ہے۔ ڈاکٹر ریاض کو جامعہ کراچی کے بورڈ آف اسٹیڈیز کے سکرٹری سمیت صوبہ سندھ کی کئی مستند اور معروف جامعات کے بورڈز کے رکن ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ڈاکٹر ریاض چغتائی سندھ کی 6 سے زائد انتہائی مستند جامعات کے لیے ایک عرصے سے امتحانی پرچے سیٹ کرنے کے ساتھ ممتحن کے فرائض بھی انجا م دے رہے ہیں۔
قارئین کرام! ہمیں اس تشویشناک خبرکے حوالے سے فکر لاحق تھی کہ اس وقت پاکستان میں 2 کروڑ سے زائد افراد آرتھرائٹس ( جوڑوں کے درد اور سوزش کے مریض ) ہیں۔ اگر اس وبا پر قابو نہ پایا گیا تو اس قوم کا کیا بنے گا۔ ہم اپنی تشویش لیے ڈاکٹر محمد ریاض بیگ چغتائی کے پاس کالج آف فزیوتھراپی جناح اسپتال جا پہنچے اور ڈاکٹر صاحب سے آرتھررائٹس کے مرض میں تباہ کن اضافے کے حوالے سے عام آدمی کی آگہی کے لیے انٹرویو دینے کی استدعا کی۔ جس پر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ جی ہاں صورت حال واقعی بہت تشویشناک ہوچکی ہے۔ اگر اس تباہ کن مرض پر قابو نہ پا گیا تو جلد یا بدیر پاکستان کی آبادی کا زیادہ بڑا حصہ غیر فعال اور غیر موثر ہوکر رہ جائے گا۔ صحت سے متعلق اہم موضوع پر ہونے والی نشست اور گفتگو قارئین کی نذر ہے۔
سوال: سب سے پہلے Arthrites کے مرض کے بارے میں بنیادی نکات بتائیں۔
جواب : Arthrites دراصل جوڑوں اور جوڑوں کی جھلیوں یعنیcartilage میں سوزش پیدا کرنے والا مہلک مرض ہے۔ اس تکلیف دہ مرض میں جوڑوں کی حرکت اور ساخت متا ثر ہو تی ہے۔اس کی بھی 2 اہم اقسام ہوتی ہیں ۔ پہلی قسم osteo arthrites کہلاتی ہے دوسری قسم کو Rheimatoid Arthrites کہتے ہیں۔ دونوں اقسام پاکستان میں بہت عام ہیں ۔پہلی قسم کا مرض بڑے جوائنٹس یعنی جوڑوں میں درد اور سوزش پیدا کرتا ہے، جو کہ جوڑوں کی جھلیوں کو متاثر کرتا ہے اس سے مریض کی نقل و حرکت متاثر ہوتی ہے۔



دوسری قسم زیادہ شدید اور زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ بیماری کی یہ دوسری قسم بد قسمتی سے نو جوانی میں ہوتی ہے جو موروثی نہیں ہوتی لیکن اس کے ہونے کی وجوہات تا حال نا معلوم ہیں۔ اس قسم میں مریض کے جوڑوں میں شدید تکلیف ہوتی ہے ۔ جس کے باعث جوان مریضوں میں معذوری اور اپاہج ہونے کا تناسب زیادہ ہے جو کہ قوم کے لیے بری خبر ہے۔اس میں جسم کے جوائنٹس فیوز ہوجاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ بیماری کی شدت سے ہڈیوں کے جوڑ آپس میں رگڑ کھا کر گھس جاتے ہیں۔ نتیجتاً مریض معذور ہوجاتا ہے۔۔ ہم نے یہاں arthrites کی جن 2 اقسام کا ذکر کیا ہے دونوں ختم نہیں ہوتیں ہیں ۔ وقت کے ساتھ ان میں شدت آتی ہے۔ تا ہم علاج معالجے اور فزیوتھراپی سے جوڑ اور جھلی میں پیدا ہونے والی خرابی کو آگے بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے بلکہ بڑی حد تک بہتری بھی لائی جاسکتی ہے لیکن ہوجانے والے نقصان کا پوری طرح ازالہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ جوڑوں میں درد یا اکڑن شروع ہوتے ہی اپنے فیملی ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ جو مرض کے باقاعدہ علاج کے لیے آرتھرائٹس کے ماہر معالج سے علاج کا مشورہ دے گا۔ مرض کا ابتدائی مرحلے میں علاج کرانے سے مریض مزید پیچیدگیوں سے بچ جاتا ہے بلکہ کسی بھی مرحلے پر علاج سے مرض کی شدت کو روکا جاسکتا ہے۔ فزیو تھراپی سے جوڑوں اور پٹھوں کی حرکت اور لچک کو بڑی حد تک بحال کیا جا سکتا ہے۔لیکن تکلیف کو جڑ سے ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ جبکہ دوائیں جوڑوں کی سوزش کو کم کرتی ہیں۔
سوال: انسان ذاتی تجربات سے بہت سیکھتا سمجھتا ہے۔ آپ کے اپنے گھرانے میں کسی کو آرتھرائٹس کے تکلیف دہ مرض کا سامنا کرنا پڑا ہو اور آپ نے بحیثیت فزیوتھراپسٹ ڈاکٹر عملاً صورت حال کا مقابلہ کیا ہو؟
جواب : بڑا دلچسپ سوال کیا ہے آپ نے۔ جی ہاں میری والدہ کو یہ مرض تھا۔ وہ جوڑوں کی تکلیف کی شدت سے بستر سے گر گئی تھیں جس کی وجہ سے ان کی کمر کا گولا ٹوٹ گیا تھا۔ ان کی ایک سرجری ہوئی، پھر دوسری سرجری ہوئی اور وہ ساڑے 3 سال تک بستر پر رہیں۔ اسی حالت میں ان کا انتقال ہوگیا۔اس وقت ان کی عمر 72 برس تھی ۔اس مرض کے بڑھنے میں بڑھتی عمر کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے۔



سوال: اس مرض کے علاج میں کوئی ایسی مثال، جو مریض اور اس کے لواحقین کے لیے خوشخبری ثابت ہوئی ہو؟
جواب : جی، یہ بھی سن لیجیے! میری اپنی بیٹی کی عمر صرف دیڑھ سال تھی ۔ ہمیں احساس ہوا کہ میری بیٹی کے گھٹنے سے نیچے کی ہڈی ٹیڑھے پن کا شکار ہے۔ ظاہر ہے یہ ہمارے لیے بہت تکلیف دہ مرحلہ تھا۔ بچوں کی اس بیماری کو Rickets یعنی بچوں کی ہڈیوں کا ٹیڑھا پن کہا جاتاہے۔ جس سے بچے کا قد نہیں بڑھ پاتا۔ لڑکیوں کا قد بہت چھوٹا رہ جانا از خود ایک حساس معاملہ ہے۔ بہرحال ہم نے اپنی بچی کی بروقت دوائیں شروع کیں. مرحلہ وار فزیوتھراپی بھی کرائی۔ اللہ کے کرم اور علاج پر بھرپور توجہ کے باعث آج ہماری بچی کا قد ہماری دیگر بچیوں میں سب سے لمبا ہے۔ یہ ہے ذمےداری سے علاج کی برکت۔
سوال: بچوں میں ہڈیوں کا ٹیڑھا پن یعنی Rickets میں آگے چل کر اور کیا پیچیدگیاں آتی ہیں؟
جواب: بچے کی پیدائش سے پہلے ماں میں وٹامن ڈی اور کیلشیم کی خاصی کمی ہونے کی صورت میں یہ کمی بچوں میں منتقل ہوجاتی ہے۔ اگر اس کمی کو جلد از جلد پورا نہ کیا جائے تو بچے کی ہڈیاں، جوڑ اور مہرے کمزور یا ٹیڑھے ہو جاتے ہیں جس سے وقت کے ساتھ کبڑا پن بھی نمودار ہو سکتا ہے۔ مریض کی ہاتھ پاؤں کی ساخت ٹیڑھی ہوسکتی ہے ۔ اسکی روز مرہ کے کام کرنے کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔
سوال: خواتین میں Arthrites کی وجوہات کیا ہوتی ہیں ؟
جواب : مردوں کی طرح خواتین میں بھی اس مرض کی وجوہات عموماً یکساں ہوتی ہیں۔ البتہ جن خواتین کی صحت کے نظام میں بگاڑ کے باعث ہڈیوں اور جوڑوں میں تبدیلیاں آتی ہیں۔ جوڑوں میں درد اور جھلیوں میں سوزش رہتی ہے جس سے جوڑوں کی حرکت اور ساخت متاتر ہوتی ہے۔ اس کا علاج بھی دواؤں اور فزیو تھراپی کے عمومی طریقوں سے ہی کیا جاتا ہے۔
سوال: کہا جاتا ہے کہ تن سازی یا باڈی بلڈنگ کے نتیجے میں جسم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے ۔ اس میں کتنی حقیقت ہے؟
جواب: آپ نے سنا ہوگا کہ حال ہی میں گوجرانوالہ اور پنجاب کے دیگر علاقوں میں کئی نو جوان تن سارزوں کی اچانک موت واقع ہوگئی ۔ کچھ باڈی بلڈرز تو چیمپئن شپ جیت کر آئے تھے۔ ان اموات کی ایک وجہ یہ سامنے آئی کہ ہمارے تن ساز اپنے مسلز بنانے کے لیے افیون کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں جس سے ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ باڈی بلڈنگ سینٹرز میں عموماً کوئی ٹرینر نہیں رکھا جاتا ہے۔ جس کے باعث باڈی بلڈر ز بے دھنگی اور من مانی ورزشیں کرتے ہیں جس سے ان کی ہڈیاں اور پٹھے متاثر ہوتے ہیں اس طرح وہ آرتھرائٹس اور (باقی صفحہ 09پر)

آسٹو پروسس یعنی ہڈیوں کے بھربھر ے پن کا شکار ہو کر موت یا معذوری سے جلد ہمکنار ہو جاتے ہیں۔
سوال : بھاری ورزشوں سے جسم خوبصورت بناوٹ تو اختیار کر لیتا ہے لیکن کیا تیار کردہ اعضا کی نسبت دیگر اعضا ہمیشہ کے لیے کم زور نہیں رہ جاتے ہیں۔ کیا اس طرح کی باڈی بلڈنگ سے جسم کا توازن ہمیشہ کے لیے بگڑ نہیں جاتا؟
جواب: جسمانی ورزشوں کی 3 اقسام ہیں۔ پہلی عام ورزش، دوسری باڈی بلڈنگ اور تیسری علاج کی غرض سے کی جانے والی ورزش۔ ان تمام کے لیے ضروری ہے کہ باقاعدہ رہنمائی کی تحت کی جائیں۔ اگر یہ من مانے طریقے سے کی جائیں گی تو جسم کی ساخت اس سے متاثر ہوگی جس سے معذوری یا موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
ایک بات یاد رکھیں کہ ہڈیوں کی نشوو نما اور مضبوطی کے لیے وٹامن۔ ڈی بہت ہی ضروری ہے۔ جو سورج کی شعاعوں میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ رنگ کو گورا رکھنے کے لیے دھوپ سے بچنے اورفلیٹوں یا بندگھروں میں رہنے کے باعث لوگوں کو بھر پور مقدار میں وٹامن ڈی نہیں ملتی جس سے ہڈیاں اور جوڑ کمزور پڑ جاتے ہیں ۔ ان میں جلد ہی ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوجاتا ہے اور بالآخر نوبت معذوری تک پہنچ سکتی ہے۔ معذوری سے بچنے کے لیے ہڈیوں کو وٹامن ڈی کے ساتھ کیلشیم کی بھر پور مقدار ملنی چاہیے۔ کیلشیم کی کمی کو دور کرنے کے لیے دودھ اور دہی کا استعمال بہت ضروری ہے۔
سوال : LOVE YOUR BONES کے حوالے سے آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
جواب : اس موقع پر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ آرتھرائٹس اایک تکلیف دہ اور مہلک مرض ہے اس کے علاج کے لیے جس قدر ممکن ہو اپنے معالج سے رجوع کیا جائے وہ یقینا اس مرض کے ماہر ڈاکٹر سے رجوع کریں گے۔ اس مرض کا علاج 2، 3 مراحل میں ہو تا ہے۔ پہلے مرحلے میں مریض کا فیملی ڈاکٹر علاج کرتا ہے۔اگر یہ بیماری زیادہ شدید ہو تو مریض کے ضروری ٹیسٹ کرانے پڑتے ہیں۔ اس کے لیے خون کے ٹیسٹ اور ایکسرے کرائے جاتے ہیں جب مرض کی تشخیص ہوجائے تو ماہر ڈاکٹر Rheumatologist کو تمام میڈیکل رپورٹس دکھانی چاہییں۔ یہ ماہر ڈاکٹر مرض کی نوعیت کے مطابق دوائیں تجویز کرتا ہے ساتھ ہی اگر ضروری ہو تو مریض فزیو تھراپسٹ کے پاس بھیجتا ہے۔ فیزیو تھراپسٹ فیزیکل ایکسر سائز سے جوڑوں پٹھوں کی حرکت اور معمولات زندگی میں ہر ممکن آسانی پیدا کرتاہے۔ چونکہ ہر مریض کا مرض یکساں نوعیت کا نہیں ہوتا اس لیے فزیوتھراپسٹ کیس کی نوعیت کے مطابق مریض مختلف ورزشوں سے گزارتا ہے۔ ایک ماہر فزیو تھراپسٹ ہی مریض کو بتا سکتا ہے کہ اسے گھرمیں کس طرح اور کتنے عرصے کے کیے فیزیکل ایکسرسائیز کرنی چاہیے۔
سوال : جناح اسپتال میں ہڈیوں کے امراض کے حوالے سے کیا سہولیات فراہم کی جاتی ہیں؟
جواب : اس وقت الحمداللہ جناح اسپتال میں اس مرض کے سینئر ماہرین اور فزیوتھراپسٹ موجود ہیں۔ لیبارٹری ٹیسٹ اورایکسرے بھی کیے جاتے ہیں۔ جناح اسپتال میں ایک ہفتے کے دوران 2 مرتبہ اس مرض کا او پی ڈی کلینک ہوتا ہے۔ کلینک میں مریضوں کو دوائیں دی جاتی ہیں۔اس کے بعد انہیں فزیو تھراپی کی او پی ڈی میں بھیج دیا جا تا ہے تاکہ جن جوڑوں اور پٹھوں کی حرکت کمی ہوئی ہو انہیں بحال کیا جاسکے ۔ مطلب یہ کہ آسٹیو آرتھرائٹس یا آرتھرائٹس یا رہیمو آرتھرائٹس کے پاس دواؤں سے علاج ہوتا ہے۔ سا تھ ساتھ فزیوتھراپسٹ اسپتال میں فزیکل ایکسر سائز سے ہڈیوں کے جوڑوں، پٹھوں گردن اور کمر کے مہروں کی قدرتی لچک کو بحال کیا جاتا ہے۔ یہ ورزشیں اسپتال میں روزانہ کی بنیاد پر کرائی جا تی ہیں۔ ان مشقوں کو گھروں میں کرنے کے طریقے بھی سیکھا ئے جاتے ہیں۔ اس وقت جناح اسپتال میں فزیو تھراپی کے تمام ضروری آلات اور مشینیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس جو سینئر فزیو تھراپسٹ ہیں۔ انہوں نے Musculo skeletal disorder یعنی مسلز اور ہڈیوں کی بیماری کے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رکھی ہے، اور یہ ماسٹرز اسی کالج میں کرایا جاتا ہے۔