بلوچ کہیں گے تو آزادبلوچستان کے مطالبے سے دستبردہوجائیں گے،براہمداغ بگٹی

225

بلوچ ریپبلکن پارٹی کے سربراہ براہمداغ بگٹی کا کہنا ہے بلوچستان کے مسئلےکے حل کے لئے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہیں ۔ کہتے ہیں ہم سیاسی لوگ ہیں اور مسائل کا حل سیاسی چاہتے ہیں ۔ اگر بلوچ کہیں گے تو آزاد بلوچستان کی تحریک سے دستبرد ہو جائیں گے ۔

برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے جلاوطن بلوچ رہنما براہمداغ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے معاملے میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ایک لحاظ سے شکست ہوئی ہے اور انھیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کا طریقہ غلط تھا اور پرامن بات چیت کے لیے آگے آنا ہوگا۔ براہمداغ کا کہنا تھا بلوچستان میں پچھلے دس پندرہ سال کے تشدد، قتل وغارت، گرفتاریوں، گمشدگیوں، مسخ شدہ لاشوں کے ملنے سے کیا فرق پڑا۔ کیا اس سے بلوچ ذہن تبدیل ہوا یا ان کی سوچ مزید پختہ ہوئی۔

ایک سوال کے جواب میں بلوچ رہنما کا کہنا تھا اگر ہمارے دوست، ساتھی، سیاسی حلیف اور عوام کی اکثریت یہ چاہتی ہے تو ہم بالکل پاکستان کے ساتھ رہنے کو تیار ہیں۔ براہمداغ بگٹی کا کہنا تھا اگر وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان ہم سے ملنا چاہیں تو ہم اس کے لیے تیار ہیں کیونکہ ہم سیاسی لوگ ہیں اور مسائل کا سیاسی حل چاہتے ہیں۔یہ تو بہت بےوقوفی کی بات ہوگی کہ کوئی کہے کہ وہ بیٹھ کر مسائل حل کرنا چاہتا ہے اور ہم کہیں کہ نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی ان سے بہت مرتبہ رابطے تو ہوئے لیکن کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ پیپلز پارٹی کے دور میں رحمان ملک وغیرہ نے بات چیت کی تھی تو اس پر جب زرداری صاحب سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ ان لوگوں سے ضرور ملیں لیکن فوج اور اسٹیبلشمنٹ آپ سے بات نہیں کرنا چاہتی ۔

براہمداغ نے کہا کہ مذاکرات کے لیے ماحول سازگار ہونا ضروری ہے۔ ’اگر قتل و غارت جاری ہو تو ایسے میں مذاکرات کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اسی لیے ہمارا کہنا ہے کہ آپریشن بند کیا جائے، تمام فورسز کو واپس بلایا جائے تو اس کے بعد ہی بات چیت کے لیے ماحول سازگار ہو سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ آرمی والے ہر مسئلے کو طاقت سے حل کرنا چاہتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ بلوچستان میں حالات خراب بھی انھوں نے کیے تھے اور اسے صحیح بھی وہیں کریں گے۔ ہمارے پاس نہ طاقت ہے اور نہ اتنی بڑی فوج کہ ہم ان کا مقابلہ کر سکیں۔ اس خون خرابے اور طاقت کے استعمال سے کچھ نہیں ہوگا۔

بلوچستان میں حکومت کی جانب سے ترقیاتی سرگرمیوں کے بارے میں سوال پر براہمداغ نے کہا کہ ’بلوچستان میں جو بھی ترقی ہو، وہاں عوامی حکومت ہے ہی نہیں۔ ترقی کے ان فیصلوں میں بلوچ عوام کی مرضی شامل نہیں اور وہ نہیں جانتے کہ ان کے صوبے میں کیا ہو رہا ہے۔

اس سوال پر کہ حالیہ دنوں میں ان پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ انھیں بھارت سے مدد ملتی ہے، براہمداغ نے کہا کہ اگر بھارت ہماری مدد کرتا ہے تو ہم اس سے انکار نہیں کریں گے کیونکہ اپنے دفاع کے لیے ہر کوئی مدد مانگتا ہے اور ہم اسی طرح اقوامِ متحدہ اور امریکہ سے بھی مدد مانگ سکتے ہیں کیونکہ بھارت نے تو بلوچستان میں آپریشن کے لئے نہیں کہا تھا ۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کی ناکامیاں ہیں اور وہ اپنے کرتوت چھپانے کے لئے اس قسم کے الزامات لگاتی ہے ۔