چند سال پیشتر بھارت کے ایک ڈگری کالج میں بڑا ہنگامہ برپا ہوا۔ ہنگامے کی وجہ یہ تھی کہ کالج کی خاتون پرنسپل نے بڑی جماعتوں کی طالبات پر Jeans نہ پہننے کی پابندی لگادی۔ پرنسپل کا کہنا تھا کہ بڑی عمر کی لڑکیاں Jeans پہن کر کالج آتی ہیں تو اوباش نوجوان ان پر فقرے کستے ہیں۔ جس کی وجہ سے کالج میں کئی بار لڑائی جھگڑوں کی نوبت آچکی ہے۔ پرنسپل کا خیال تھا کہ لڑکیوں کا لباس بہتر ہونے سے طلبہ تعلیم پر زیادہ توجہ دینے کے قابل ہوسکیں گے۔ بظاہر یہ فیصلہ طالبات اور تعلیم کے حق میں تھا۔ لیکن طالبات کی اکثریت نے اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کیا پہننا ہے اور کیا نہیں پہننا ہے‘ اس کا فیصلہ پرنسپل نہیں ہم خود کریں گے۔ ہنگامہ بڑھا تو طالبات کے کئی والدین کالج پہنچ گئے اور انہوں نے پرنسپل سے کہا کہ اپنی بیٹیوں کے لباس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے تو آپ اعتراض کرنے والی کون ہوتی ہیں؟ ہمارا خیال تھا کہ پرنسپل اس سلسلے میں ہندو ازم کے کسی اخلاقی اصول یا ہندو ازم کی تہذیبی روایت کا حوالہ دیں گے مگر ہندوستان میں ہندو ازم صرف اسلام اور مسلم دشمنی کے کام آتا ہے۔ ورنہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہندو ازم کی اخلاقی، تہذیبی اور علمی روایت ایک مردہ روایت بن چکی ہے۔ اس روایت کے آنجہانی ہوئے بغیر بھارت میں آر ایس ایس اور بی جے پی کا ہندو فاشزم پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔ لیکن یہاں سوال ہے کہ زیر بحث مسئلے کے سلسلے میں ہندو ازم کی تہذیبی روایت کی اہمیت کیا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہندو ازم کی تاریخ سے صرف ایک حوالہ بھی کافی ہے۔
a
رام ہندو تاریخ کی عظیم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے اپنے والد کا ایک وعدہ نبھانے کے لیے چودہ برس کا بن باس یعنی چودہ سال تک جنگلوں میں رہنے کے عمل کی ابتدا کی تو ان کی بیوی سیتا اور ان کا سوتیلا بھائی لکشمن بھی ان کے ساتھ ہولیا۔ رام، سیتا اور لکشمن کو جنگلوں میں رہتے ہوئے کئی سال ہوگئے تھے۔ ایک دن لنکا کے بادشاہ راون نے سیتا کو جنگل میں دیکھا تو وہ سیتا کو دھوکے سے اغوا کرکے سری لنکا لے گیا۔ اس موقع پر رام نے اپنے بھائی لکشمن سے کہا کہ میں بھی سیتا کو جنگل میں ڈھونڈتا ہوں تم بھی اپنی بھابی کو تلاش کرو۔ لکشمن نے یہ سن کر رام سے کہا کہ میں نے آج تک بھابی کے صرف پاؤں دیکھے ہیں۔ آپ مجھے بتائیے کہ وہ چہرے مہرے اور حلیے سے کیسی لگتی ہیں تا کہ میں انہیں کہیں دیکھوں تو پہچان لوں۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہندو ازم میں مردوں کی شرم و حیا کا یہ عالم تھا عورتوں کی شرم و حیا کا کیا عالم ہوگا۔ لیکن ہندو ازم کے اخلاقی اور تہذیبی زوال نے ہندوستان کو مغرب پرستی کے جنون میں مبتلا کردیا ہے۔
بھارت کی فلم انڈسٹری بھارت میں مغربیت کے فروغ کا سب سے بڑا ادارہ ہے لیکن کچھ عرصے پہلے تک زیر بحث موضوع کے حوالے سے بھارت کی فلم انڈسٹری کا کیا حال تھا اس کا اندازہ کرنے کے لیے ایک فلمی گیت کے تین حصے ملاحظہ کیجیے۔
اکتارہ بولے تُن تُن
کیا کہے یہ تم سے سُن سُن
بات ہے لمبی مطلب گول
کھول نہ دے یہ سب کے پول
اکتارہ بولے ۔۔۔۔۔
***
پہلے تو تھا چولہ برقع
پھر کٹ کٹ کے وہ ہوا کُرتا
چولے کی اب چولی ہے بنی
چولی سے آگے کیا ہوگا؟
یہ فیشن بڑھتا بڑھتا گیا
اور کپڑا تن پر گھٹتا گیا
تو پھر اس کے بعد؟
اکتارہ بولے ۔۔۔۔۔
***
ہٹ تری ایسی تیسی
صورت ہے لڑکی جیسی
تنگ پینٹ پتلی ٹانگیں
لگتی ہیں سگریٹ جیسی
دیش کا یہی جوان ہے تو
دیش کی یہ سنتان ہے تو
پھر اس کے بعد؟
اکتارہ بولے ۔۔۔۔۔
یہ بھارت کی فلم ’’یادگار‘‘ کا ایک گیت ہے۔ یہ فلم 1920ء میں نہیں 1970ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ اس فلم کے مذکورہ گیت کے بول بتارہے ہیں کہ 1970ء تک بھارت میں لباس اتنا اہم مسئلہ تھا کہ اسے فلمی گیت میں زیر بحث لایا جاسکتا تھا اور لباس کے بدلتے ہوئے رجحانات کا مذاق اڑایا جاسکتا تھا۔ مذکورہ گیت میں پیش کیے گئے خیالات اگر معاشرے میں مقبول نہ ہوئے تو فلم کا پروڈیوسر یا ڈائریکٹر ’’تجارتی وجوہ‘‘ کے باعث ان خیالات کو گیت میں شامل کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔ فلم خواہ کتنی ہی اچھی یا سنجیدہ کیوں نہ ہو فلم ہوتی ہے‘ کسی شیخ یا برہمن کی تقریر یا وعظ نہیں ہوتی۔ لیکن صرف 47 سال میں بھارت اتنا بدل چکا ہے کہ مذکورہ گیت اب بھارت کے ماضی کا ایک مزار ہے۔ بدقسمتی سے زیر بحث موضوع کا ہمارے معاشرے سے بھی ایک تعلق ہے۔
یہ چند روز پہلے کی بات ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے نجی ادارے IBM میں ایک واقعہ پیش آیا۔ واقعے کے مطابق آئی بی ایم میں انگریزی کی ایک غیر مستقل خاتون استاد آئی بی ایم پہنچیں تو ادارے کے اسسٹنٹ سیکورٹی آفیسر نے ان کی غیر مناسب پینٹ شرٹ پر اعتراض کیا اور کہا کہ آپ کا لباس ادارے کے ’’ضابطہ لباس‘‘ یا Dress Code کے مطابق نہیں ہے۔ خاتون استاد نے اس مسئلے کو سوشل میڈیا پر اچھال دیا اور اسے اپنی آزادی پر قدغن قرار دیا۔ نتیجہ یہ کہ سوشل میڈیا پر ایک اچھا خاصا ہنگامہ برپا ہوگیا۔ کئی خواتین نے شکایت کی انہیں بھی اس ادارے میں ’’ضابطہ لباس‘‘ کا ’’دکھ‘‘ سہنا پڑا ہے۔ آپ کے خیال میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس صورتِ حال کا کیا نتیجہ نکلا ہوگا؟ اگر آپ کا خیال ہے کہ ادارے نے خاتون استاد کو ادارے سے فارغ کردیا ہوگا تو آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ صورتِ حال اس کے برعکس رونما ہوئی۔ ادارے نے سیکورٹی اسسٹنٹ کو برطرف کردیا۔ ادارے نے ’’متاثرہ‘‘ خاتون سے معافی مانگی اور انہیں یقین دلایا کہ آئندہ ادارے میں ان کے یا کسی اور کے ساتھ ایسا نہیں ہوگا۔ اس واقعے کا یہ پہلو بھی اہم ہے کہ ادارے کا ضابطہ لباس کسی مذہبی شعور کا نتیجہ نہ تھا بلکہ ادارے کے ملازمین کے بقول یہ ضابطہ لباس اس لیے اپنایا گیا تھا کہ کہیں طالبات ادارے پر حملہ نہ کردیں۔
عام خیال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں دین داری بڑھ رہی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ دی جاتی ہے کہ خواتین میں پردے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اسی طرح مردوں میں ڈاڑھی رکھنے کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔ یہ باتیں درست ہیں مگر ان چیزوں کا تعلق ظاہر سے ہے۔ بلاشبہ ظاہر کی تبدیلی بھی اہم ہے لیکن اس سے زیادہ اہم باطن کی تبدیلی ہے۔ اس مسئلے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ پردے اور ڈاڑھی کا رجحان زیریں متوسط طبقے یا متوسط طبقے یعنی ower Middle Class یا Middle Class میں بڑھ رہا ہے۔ اس کے برعکس بالائی طبقات کے ظاہر اور باطن دونوں میں مغربیت یا سیکولر اور لبرل رجحانات تیزی کے ساتھ پھیل رہے ہیں۔ اس بات کی اہمیت یہ ہے کہ ریاست اور معاشرے میں طاقت کے جتنے مراکز ہیں وہ بالائی طبقات کے ہاتھ میں ہیں، عسکری طاقت ان کے ہاتھ میں ہے، سیاسی طاقت ان کے پاس ہے، معاشی اور مالیاتی ادارے ان کے قبضے میں ہیں، ابلاغی ادارے ان کے کنٹرول میں ہیں، یہاں تک کہ نجی شعبے میں قائم ہونے والے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی بڑی تعداد بھی بالائی طبقات کی جیب میں پڑی ہوئی ہے۔ اس صورت حال کے ممکنات اور مضمرات عیاں ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ 1960ء سے 1990ء کی دہائی تک تمام اعلیٰ تعلیمی ادارے سرکاری شعبے یا Public Sector میں تھے۔ ان تعلیمی اداروں میں اسلامی جمعیت طلبہ نے ایک نظریاتی کشمکش برپا کرکے نئی نسل کے لاکھوں نوجوانوں کو سوشلسٹ، سیکولر اور لبرل ہونے سے بچالیا تھا۔ مگر اب نظریاتی کشمکش کے تحلیل ہوجانے سے تمام اعلیٰ تعلیمی اداروں بالخصوص اعلیٰ نجی تعلیمی اداروں میں مسلسل سیکولر ازم کا ’’دیو‘‘ پرورش پارہا ہے۔ یہ دیو آئندہ پانچ دس برسوں میں ہر طرف دندنا رہا ہوگا۔ ابھی یہ دیو صرف ’’ضابطہ لباس‘‘ کا مذاق اُڑا رہا ہے۔ آنے والے کل میں صرف مذہب کے پورے ضابطہ اخلاق کا مذاق اڑائے گا۔ آنے والے برسوں میں یہ دیو مذہب کے ’’ضابطہ عقائد‘‘ کو پامال کرے گا۔ ہندو ازم بھارت پر مسلمانوں کے غلبے سے پہلے زوال کا شکار ہوچکا تھا۔ لیکن مسلمانوں کی ہزار سالہ اور انگریزوں کی 200 سالہ غلامی نے ہندو ازم اور اس کی تہذیب کی حالت مزید خستہ کردی۔ لیکن ہماری تو ہر چیز زندہ ہے۔ ہمارے عقائد زندہ ہیں، ہماری عبادات کا نظام زندہ ہے، ہماری اخلاقیات زندہ ہے، ہماری تہذیب زندہ ہے۔ مگر اس کے باوجود سیکولر ازم لبرل ازم اور ان کے مظاہر کامیابی کے ساتھ ہمارے معاشرے اور ہماری تہذیب کی بنیادیں کھود رہے ہیں اور ہمیں ’’نظریاتی کشمکش‘‘ کیا ’’نظریاتی کِشمش‘‘ بھی عزیز نہیں۔