بڑھاپا اور اس کا صحیح مصرف

937

مثل مشہور ہے
جو جاکے نہ آئے وہ جوانی دیکھی
جو آکے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا
واقعی بڑھاپا جانے کے لیے نہیں آتا بلکہ لے جانے کے لیے آتا ہے۔ وہ انسان کو قبر میں اتار کر رخصت ہوتا ہے۔ انسانی زندگی کے تین اہم مراحل ہیں۔ بچپن، جوانی اور بڑھاپا۔ بچپن ہوا کے ایک جھونکے کی مانند ہے، یوں لگتا ہے کہ بس ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا تھا آیا اور گزر گیا۔ بلاشبہ یہ بے فکری اور کھیل کود کا زمانہ ہوتا ہے جس میں مناظر تیزی سے بدلتے ہیں، اس عمر میں سوچنے سمجھنے سے زیادہ محسوس کرنے کی صلاحیت بیدار ہوتی ہے۔ بچہ اردگرد کے ماحول سے بہت زیادہ اثر قبول کرتا اور اپنے آپ میں مگن رہتا ہے۔ بچپن اور جوانی کے درمیان بھی ایک وقفہ ہوتا ہے جسے لڑکپن کہتے ہیں۔ انگریزی میں اس کے لیے نہایت بامعنی لفظ ہے TEENAGE جو لڑکے اور لڑکیاں اس عمر کو پہنچتے ہیں وہ ٹین ایجر کہلاتے ہیں۔ یہ عمر غیر معمولی تحرّک سے عبارت ہوتی ہے جس میں کسی پل چین نہیں آتا بس کچھ نہ کچھ کر گزرنے کو جی چاہتا ہے لیکن دیکھا جائے تو یہ عمر بھی عرصہ حیات میں تادیر قیام نہیں کرتی بس ہنس بول کر اور جی بہلا کر رخصت ہو جاتی ہے۔ پھر زندگی کا سب سے پُرجوش، نشاط انگیز اور ولولہ خیز مرحلہ شروع ہوتا ہے جسے جوانی کہتے ہیں۔ جوانی انسانی زندگی کا نقطہ عروج ہے جس میں انسان خواب دیکھتا ہے اور خواب کی تعبیر تلاش کرتا ہے۔ وہ اپنے لیے رفیقہ حیات کا انتخاب کرتا ہے۔ ’’انتخاب‘‘ کا لفظ ہم نے ’’تکلفاً‘‘ لکھ دیا ہے اکثر ایسا ہوتا نہیں ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس میں ماں باپ ہی یہ فریضہ انجام دیتے ہیں اور جوانی زندگی کے حسین ترین مرحلے میں داخل ہوجاتی ہے ایک نئے خاندان کی بنیاد پڑتی ہے اور نسل انسانی کی بقا تسلسل کے نئے مدارج سامنے آتے ہیں۔ جوانی میں انسان سوچتا کم ہے کرتا زیادہ ہے کیوں کہ یہ اس کے عمل کا زمانہ ہے وہ اس عمر میں بالعموم اپنی صلاحیتوں کو آزماتا اور اپنے اعصاب کو پرکھتا ہے اور اعتماد کے ساتھ شاہراہ حیات پر آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا اگر آدمی جوانی میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا رہے اور اپنی خوش گمانی میں مبتلا رہے تو جوانی چپکے سے گزر جاتی ہے اور اسے پتا بھی نہیں چلتا۔ شاعر نے کہا ہے؂



a

دل چاہتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے
لیکن دل کے چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔ رہا ’’تصور جاناں‘‘ تو اس کی حیثیت بھی ایک ضابطے سے زیادہ نہیں۔ زندگی تلخ‘ ترش اور شیریں حقائق سے عبارت ہے اس میں خیال آرائی کی گنجائش بہت کم ہے۔ جوانی انسانی زندگی کا حسین ترین دور ہے۔ آدمی چاہتا ہے کہ یہ دور طویل تر ہوتا چلا جائے وہ اس کے لیے بہت جتن کرتا ہے۔ جوانی کو برقرار رکھنے اور اسے طول دینے کے نسخے آزماتا ہے۔ بالوں کی سفیدی کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے، چہرے کی ڈینٹنگ پینٹنگ پر خصوصی توجہ دیتا ہے لیکن یہ ساری کوششیں عارضی اور نا پائیدار ثابت ہوتی ہیں اور بڑھاپا تمام رکاوٹیں عبور کرتا ہوا آن موجود ہوتا ہے۔
بڑھاپا رونے کے لیے نہیں، گزری ہوئی خوشگوار یادیں تازہ کرنے اور زندگی کا لطف اٹھانے کے لیے آتا ہے۔ یہ وہ عمر ہے کہ آدمی اپنی ساری ذمے داریوں سے سبکدوش ہوچکا ہوتا ہے۔ اگر وہ اولاد والا ہے اور قدرت نے اسے بیٹیوں اور بیٹوں کی نعمت سے نوازا ہے اور اس نے کسی بُری عادت میں مبتلا ہوئے بغیر ایک مطمئن، آسودہ اور خوشحال جوانی گزاری ہے اور ہر مرحلے پر اپنے ربّ کو یاد رکھا ہے تو اس کا ربّ بڑھاپے میں اسے مایوس نہیں کرتا اور اس کے لیے اُمیدوں کے گل و گلزار کھلا دیتا ہے۔ بیٹیاں پرایا دھن ہوتی ہیں وہ اپنے والدین کو الوداع کہہ کر اپنے نئے گھر رخصت ہوجاتی ہیں لیکن بڑھاپے میں ان کی یادیں دلوں کو منور رکھتی ہیں پھر ان بیٹیوں کی اولاد راحتِ جان بن جاتی ہے۔ رہے بیٹے تو اگر ایک سے زیادہ ہیں تو وہ شادی کے بعد چاہے ایک چھت کے نیچے رہیں یا الگ الگ گھر بسائیں، سب بڑھاپے کا سہارا ہوتے ہیں اور ان کے درمیان اپنے بوڑھے والدین کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایک رشک آمیز مسابقت جاری رہتی ہے۔ بیٹا اکلوتا ہے اور وہ ایک مطمئن آسودہ اور خوشگوار ازدواجی زندگی گزار رہا ہے تو اس کی قسمت کے کیا کہنے وہ تنہا بوڑھے والدین کی انمول دولت کا وارث ہوتا ہے۔ بوڑھے والدین اس کے لیے بیش بہا دولت بھی ہوتے ہیں، قسمت بھی اور اللہ کی رحمت بھی۔ وہ ان کی جس قدر خدمت کرتا ہے اس قدر اس کی قسمت سنورتی چلی جاتی ہے اور اس کا شمار اللہ کے محبوب بندوں میں ہونے لگتا ہے۔ یہ اس لیے کہ وہ یہ سب کچھ اللہ کی خوشنودی کے لیے ہی کرتا ہے۔
یہ اسلامی معاشرے کی ایک جھلک ہے لیکن بڑھاپا مغرب کے مادہ پرست معاشرے میں جس بُری طرح خوار ہورہا ہے وہ مقام عبرت ہی نہیں انسانیت کی تذلیل بھی ہے۔ والدین جب بوڑھے ہو جاتے ہیں اور اپنا بوجھ خود اُٹھانے کے قابل نہیں رہتے یا معذور اور بیمار رہنے لگتے ہیں تو ان کی نوجوان اولاد ان کی ذمے داری قبول کرنے اور انہیں ہنسی خوشی برداشت کرنے کے بجائے اولڈ ہومز میں چھوڑ آتی ہے جہاں وہ اذیت ناک تنہائی اور کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہوئے دم توڑ دیتے ہیں۔ بڑھاپا زندگی کا عبرت ناک مرحلہ نہیں، یہ انسان کے لیے ایک خوشگوار اور پُرکیف تجربہ ہے۔ بشرطیکہ اس کے اردگرد ایک انسان دوست ماحول موجود ہو لیکن افسوس مغرب کی مادہ پرستی نے اسے عبرت کا مقام بنادیا ہے اور اس کے اثرات پوری دُنیا میں پھیل رہے ہیں۔ پاکستان بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں۔ یہاں بھی اولڈ ہومز موجود ہیں، خاص طور پر ایدھی ہومز جہاں بوڑھوں کی خبر گیری کی جاتی ہے۔ بڑھاپا درحقیقت زندگی کی آخری وارننگ ہے جو لوگ زندگی کی ساری اننگز کھیل کر رخصت ہوتے ہیں ان کے دل میں مزید زندہ رہنے کی حسرت نہیں رہتی۔ غالبؔ نے کیا خوب کہا ہے۔
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
یعنی موت نے انسان کے اندر جینے کا لطف پیدا کردیا ہے۔ اگر مرنا انسان کے مقدر میں نہ ہوتا اور وہ بڑھاپے کی منزل پر پہنچنے کے بعد زندگی کی سولی پر لٹکا رہتا یا بڑھاپا اس کی زندگی میں کبھی نہ آتا اور اس کی عمر جوانی کی دہلیز پر پہنچ کر رُک جاتی اور اسے جوانی کے بے حد و کنار سمندر میں پھینک دیا جاتا تو زندگی کی یہ یکسانیت اس کے لیے ایک عذاب بن کر رہ جاتی۔ یہ موت ہی ہے جس نے اس کی عارضی زندگی میں رنگینی پیدا کردی ہے۔ آدمی بڑھاپے کی منزل پر پہنچتا ہے تو مرنے کے بعد آنے والی دائمی زندگی کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔
موت کیا ہے زندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
اسلام نے موت کے بعد آنے والی زندگی کا یہ تصور دیا ہے کہ وہ یا تو ابدی عذاب ہوگی یا ابدی راحت اور اس کا فیصلہ ان اعمال کی بنیاد پر ہوگا جو انسان اس دُنیا میں کرتا رہا ہے۔ آدمی جب بوڑھا ہونے کے بعد اپنی گزری ہوئی زندگی پر نظر ڈالتا ہے تو خواہ اس نے دنیاوی لحاظ سے کتنی ہی کامیاب زندگی گزاری ہو، اسے مایوسی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ سزا و جزا کا عقیدہ اسے لرزہ براندام کردیتا ہے وہ اگر سچا مسلمان ہے اور اس کے عقیدے اور ایمان میں کوئی کھوٹ نہیں ہے تو پھر وہ اپنے ربّ کو راضی کرنے میں لگ جاتا ہے، وہ راتوں کو اُٹھ کر اپنی پیشانی ربّ کے حضور ٹکا دیتا ہے، وہ روتا ہے گڑگڑاتا ہے معافی مانگتا ہے تا کہ آنے والے ابدی عذاب سے چھٹکارا مل جائے۔ دیکھا جائے تو یہی بڑھاپے کا صحیح مصرف ہے۔